کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 88
ایسا کہاں سے لائیں کہ تم سا کہیں جسے بیسویں صدي کي عظیم ترین شخصیت،علامہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ (از:....مولانا حفیظ الرحمن عمری مدنی، جامعہ دارالسلام، عمر آباد، انڈیا) شیخ کی ولادت 1910 م میں ہوئی اور وفات 1999ء میں، اس طرح آپ کا وجود اس پوری صدی پر محیط ہے، اس لیے میں آپ کو بیسویں صدی کی شخصیت کہوں گا اور عظیم ترین اس لیے کہ آپ کی خدمات اور اثرات ہر قابل ذکر شخص کے ذہن ودماغ پر مرتسم اور منقوش ہیں، آپ کی خدمات بلاشبہ عظیم ہیں اور ان کا دائرہ یقینا لا محدود ہے، شیخ کی وفات کو ابھی چند دن ہوئے ہیں، اس مدت میں ہر اس شخص نے کچھ نہ کچھ لکھا جس نے ایک گھنٹہ ہی سہی شیخ کی علمی مجلس میں گزارا یاآپ کی رفاہی خدمت کی جھلک دیکھی اور وہی اس کی زندگی کا ناقابل فراموش لمحہ بن گیا جیسے وہ کہہ رہا ہو ؎ مری زندگی کا حاصل، مرے شوق کا سہارا وہی لمحہ زندگی کا ترے ساتھ جو گزارا شیخ پر لکھنے والے ہزاروں ہوں گے اور وہ لا کھوں صفحات پر ان کے علمی، دعوتی، رفاہی، اصلاحی اور جود وسخا پر واقعات اور کارنامے تحریر کریں گے، ایسے میں مجھ ہیچ مدان سے آپ کیا توقع رکھ سکتے ہیں، سوائے ایک بات کے، ازمابجز حکایت مہر وفامپرس۔۔ میں ایک گمنام اور ناقابل ذکر انسان ہوں لیکن خوش قسمتی سے مدینہ طیبہ کی سرزمین میں شیخ کی زیر سرپرستی جو چار سال گزرے وہ بہت ہی قابل ذکر اور لائق فخر ہیں چمپنستان کی بے رنگ و بو گھاس نے مستی سے انگڑائی لی تو تحقیر کے ساتھ اسے ٹوکا گیا کہ تجھے اترانے کا حق کیا ہے؟ گھاس نے ٹوکنے والوں کا منہ یہ کہہ کر بند کردیا کہ میں کیا ہوں یہ نہ دیکھو، کہاں ہوں یہ دیکھو، ان رنگ برنگے