کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 86
طبعیت ہے، فوراً جواب دیا مطمئن رہو، الحمد للّٰہ انا بخیر وعافیۃ، آخر وقت تک گھر والوں سے بھی یہی کہتے رہے، آپ کے لڑ کے احمد کا بیان ہے سنت کے مطابق رات گھر میں آکر کسی سے زیادہ بات نہیں کرتے تھے، لیکن انتقال کی رات ہم سب کو بلایا اور نصف رات تک خلاف معمول نصیحتیں کرتے رہے اور دو تین بجے کے بعد تو صرف تسبیح و تہلیل ہی کرتے رہے، آخر وقت تک چہرے پر بشاشت اور مسکراہٹ سجائے رکھی، حتی وافۃ المیۃ، اور اپنی زندگی کے آخردن تک اپنی ڈیوٹی بڑے نشاط کے ساتھ انجام دی۔
چند ماہ قبل شدید نقاہت و کمزوری کے شکار ہوئے تو ڈاکٹروں نے رات بھر ہسپتال میں رکھے رکھا، صبح چھٹی ملی تو کار میں سیکرٹری سے پوچھا کیا ٹائم ہے، عرض کیا نوبجے ہیں، کہا دوام کا ٹائم ہو گیا مکتب چلے چلو۔ہسپتال جانے سے پہلے تک، درس وتدریس ملاقاتیں اور فتاوے، عبادت و ریاضت، حسب معمول جاری رکھیں، فرض نماز چند ہفتے قبل تک کھڑے ہو کر ہی پڑھتے تھے، ہاں سنتوں میں پہلی رکعت پڑھ کر بیٹھ جاتے تھے، درس یاذکر واذکار کے وقت بھی پیران سالی کے باوجود ٹیک لگا کر نہیں بیٹھتے تھے، کوئی اگر کہتا بھی تو آگے سر ک جاتے تھے، ایک طالب علم نے کہا آپ بہت کمزور ہوگئے ہیں، آپ کو آرام و سکون کرنا چاہیے، دروس کا سلسلہ بند کر دیجئے، فرمایا نہیں بیٹے مجھے اسی میں سکون ملتا ہے۔
ایک بار کسی نے کہا شیخ آپ ریٹائر منٹ کی عمر کو پہنچ چکے ہیں، ضعف پیری بھی ہے، آرام کرنا چاہیے، مسکراکر جواب دیا، تقریباً بیس سال پہلے ہی پورے استحقاق کے ساتھ مجھے ریٹائر منٹ لینی چاہئے تھی لیکن اپنے بھائیوں کی مشکلات ان کی پریشانیاں اور ان کی حاجت روائی کا خیال چین سے نہیں بیٹھنے دیتا۔
آپ کے یہ چند معمولات واحوال ہیں اس کے علاوہ بے شمار اوصاف اور واقعات ہیں جن میں سرور کونین محمد المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کا نقش نظر آتا تھا۔
آج وہ اللہ تعالی کو پیار ے ہوچکے ہیں، لیکن ان کی ہر بات، ہر لمحہ قربت، مسجد میں ان کا انتظار، دروس ونصائح کی سماعت، گھر بلانا، عزت وتکریم، بے لوث محبت والفت دل پر