کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 85
شیریں کلام سے کام لیا ہے اتنے اتنے ریال اسے دے دو گھر آکر لے لینا، ایسا بارہا ہوتا رہا، یہ ہی سب کرم نوازی تھی کہ لوگ اس دور کے حاتم طائی کے لقب سے یاد کرتے ہیں، اسی کے ساتھ ایک اہم خوبی یہ دیکھنے میں آئی کہ داد ودہش، عطا وسخاوت کی اتنی کثرت کے باوجود کبھی بڑاپن یا سائل کی ادنیٰ سے تحقیر وتذلیل کا شائبہ تک نہیں تھا، نہ کبھی احسان جتانے والی بات سامنے آئی، کوئی شخص اپنی حاجت روائی یا کام پورا ہوجانے پر اگر شکریہ ادا کرتا تو فوراً جواب دیتے یہ اللہ تعالیٰ کا ہی فضل وکر م ہے، اسی ذات باری کا شکریہ ادا کرو، ایک اور صفت یہ تھی کہ درس وتدریس، مسئلے وفتاوے، ٹیلیفون اور سلام وکلام ودیگر مصروفیات کے باوجود جب بھی فرصت ملی آپ کو ذکر الٰہی میں مشغول تسبیح وتہلیل میں رطب اللسان دیکھا اور پھر جب بھی کسی مجلس سے اٹھتے دعائے کفارۂ مجلس....: ((سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ، اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ اَسْتَغْفِرُکَ وَاَتُوْبُ اِلَیْک۔)) ضرور پڑھتے تھے، حالانکہ آپ کی مجالس ذکر اللہ وما والاہ کا نمونہ ہوتی تھیں، ایک شاگرد نے استفسار کیا آپ کو ہر مجلس میں کھڑے ہوتے یہ کلمات پڑھتے سنا ہے؟ فرمایا: قرآن پاک میں نہیں پڑھا: ﴿وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ حِیْنَ تَقُوْمُ﴾ صبر وشکر اور راضی برضائے الٰہی کا عجب نمونہ تھے، کئی بار مختلف امراض کا شدید حملہ ہوا، لیکن کبھی اف، آہ، کرتے نہیں دیکھا، عزم وحوصلے کی چٹان بنے ہر مصیبت کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا، پیر کی تکلیف کی وجہ سے چلتے چلتے رک جاتے، دانت درد سے آواز رک جاتی، آنسو نکل آتے اور آخری مرض میں جان وجگر کی بڑی تکلیف سے نبرد آزما رہے لیکن کبھی پیشانی پر شکن نہ آنے دی، جب بھی کسی نے طبعیت کے بارے میں پوچھا، بڑی بشاشت سے جواب دیا، میں الحمد للہ بہت اچھی ہے اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں سے مالا مال ہوں، وفات سے چند ماہ قبل میں نے کہا سماحۃ الشیخ آپ کی صحت کے بارے میں بڑی تشویش ہے، بتا دیجئے کیسی