کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 84
منسپلٹی آف بطحاء میں لائسنس کے مدیر جناب عبداللہ الحامد نے بتایا کہ چند سال قبل وہ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ امریکہ کی سیر وتفریح کے لیے گئے، شہری آبادی سے دور کہیں دیہاتی علاقے سے گزررہے تھے، ایک گاؤں میں پڑاؤ ڈالا تو لوگ جمع ہو گئے، کچھ مسلمان بھی تھے، ایک بوڑی عورت بھاگتی آئی اور شیخ کی خیریت دریافت کی، لگی دعائیں دینے، ہم حیران تھے، شیخ نے اپنے مترجم کے ذریعے پوچھا آپ انہیں کیسے جانتی ہیں، کہنے لگیں ہم نے موصوف کے بارے میں ان کی غریبوں سے محبت وامداد کے بارے میں سنا تھا، ہمارے بڑے تنگدستی وبدحالی کے دن تھے، سوچا لکھ کر تو دیکھیں، ایک خط لکھا چند ہفتوں کے بعد بھاری رقم کا چیک خوشیوں اور مسرتوں کی نوید لے کر ہمارے نام آگیا اور ہماری دنیا بدل گئی۔ ایک بار استاد محترم ڈاکٹر ضیاء الرحمن صاحب نے کاغذات ارسال کیے کہ ایک عورت ہندوستان میں مسلمان ہوئی، گھر والوں نے اسے زدوکوب کیا، گھر سے نکال دیا، در در کی ٹھوکریں کھارہی ہے، اگر اس کے لیے گھر کا انتظام ہو جائے تو ٹیچنگ وغیرہ سے زندگی گزار لے گی، سماحۃ الشیخ سے کہو کہ اس کی مدد کریں، میں نے درخواست عرض کی تو پوچھا گھر کے لیے کتنا پیسہ درکار ہوگا، مرسلہ تخمینہ بتا یا تو آرڈر دیا کہ پوری مقررہ رقم فوری طور پر ناچیز کے حوالے کردی جائے۔ ایک اور واقعہ آپ کے ایک شاگرد نے بتایا کہ ایک فلپینی عورت آپ کی پاس آئی ( واضح رہے کہ عورتوں کے لیے الگ مجلس تھی) اس نے عرض کیا میرا شوہر قتل کردیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ کے بعد اس دنیا میں آپ کا ہی سہارا نظر آتا ہے میری مدد کیجئے، آپ نے فوراً امین الصندوق کو بڑی رقم سے مددکرنے کا آرڈر دیا، جواب آیا کہ اس مد میں کوئی پیسہ نہیں ہے، آپ نے جواب لکھا کہ میری تنخواہ میں سے کاٹ کر دس ہزار ریال محترمہ کو دے دو۔ رقیق القلب اتنے کہ سائل کی حالت وکیفیت اور اس کے لب ولہجے سے متاثر ہوتے تھے، اسی لیے جب مطمئن ہوجاتے تو بھر پور مدد کرتے، ایک بار ایک سائل نے مسجد میں اپنی پریشانی بیان کی اور مالی تعاون کی اپیل اور بڑی خوش اسلوبی سے اپنا مدعا بیان کیا، آیات قرآنیہ اور احادیث پڑھیں، بڑے متاثرہوئے اور سرگوشی کرتے ہوئے فرمایا کہ آدمی نے بڑی