کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 82
اس قرار داد کے صادر کرنے پر امیر موصوف کی تعریف کی اور مبارکباد دی، شیخ محترم فوراً گویا ہوئے، اس کی تنفیذپر سختی کی نیز دیگر فواحش ومنکرات کو روکنے کی بھی اشد ضرورت ہے، امیر محترم نے مسکرا تے ہوئے آپ کی نصیحتیں اور ریمارکس سنے اور حتی الامکان اصلاح احوال کا یقین دلایا۔ اس طرح میں نے وزیر داخلہ شہزادہ نایف بن عبدالعزیز اور گورنر ریاض امیر سلمان بن عبدالعزیز ودیگر امراء کو آپ کے پاس گھنٹوں بیٹھتے دیکھا اورآپ کو نصیحت کرتے سنا، موصوف نے حق کی سر بلندی، اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے کبھی کسی کے سامنے مجاملت سے کام نہیں لیا، حرب خلیج میں یاسر عرفات کی غلط پالیسی پر شیخ نے گورنر ریاض سے کہا کہ پوری قوم اور عوام کو اس کی سزا نہ دی جائے، امداد جاری رہنی چاہیے، امیر سلمان نے جواب دیا، اتفاق ہے آج ہی میں نے چیک روانہ کیا ہے، یہ دیکھئے اس کی رسید بھی موجد ہے۔ اہل خاندان وقبلہ کی راہنمائی اور نصیحت کرتے، جب بھی کہیں جمع ہوتے، ان کو سلامت روی کی تلقین کرتے، شادی ہال، مکان، مسجد، ہر جگہ اس کا اہتمام کرے، عام مسلمانوں اور طالب علم کے فائدے اور نصیحت کے لیے جہاں سے بھی دعوت ملتی آپ کبھی انکار نہیں کرتے تھے، اسی طرح یونیورسٹی، کا لجز، حتی کہ کھیل کود کے کلب اور نوادی، جیل خانے تک آپ جاتے اور وعظ ونصیحت کرتے جس کی وجہ سے کتنے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت نصیب فرمائی اور ہزاروں کی تعداد میں مختلف ممالک کے لوگ آپ کے ہاتھ پر اسلام لائے۔ اسی افادہ عامہ کے لیے عصر کے بعد روزانہ درس حدیث کا سلسلہ ہمیشہ جاری رکھتے اور جہاں بھی رہتے اس کابڑا اہتمام کرتے، راقم نے سترہ سال کے عرصے میں عصر کے بعدکئی بار ریاض الصالحین، الوابل الصیب، عشاء کے وقت بلوغ المرام، کتاب التوحید، عمدہ الاحکام، العقیدۃ الواسطیۃ، الاصول الثلاثہ ودیگر کئی کتب حرفاً حرفاً پڑھیں، اتنا شدید اہتمام ان دروس کا کرتے کہ یہ سلسلہ جمع اور عید ین اور دوسری چھٹیوں میں بھی منقطع نہ ہونے دیتے تھے۔ شروع میں ایک بار عرض کیا تھا کہ یہ چھٹی کے دن ہیں لوگ چھٹی منا تے ہیں فرمانے لگے، انہی دنوں