کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 80
لیے راہ راست پر چلنے کی دعا کرتے اور ان کو رخصت کرنے کے لیے مجلس کے دروازے تک آتے دیکھا جبکہ کسی امیر کبیر کے لیے آپ کو ایسا کرتے میں نے نہیں دیکھا۔ اسی طرح محدث زمان فضیلۃ الشیخ العلامہ ناصر الدین الالبانی حفظہ اللہ کی کاوشوں کا اعتراف تھا اور آپ کے نزدیک ان کی بڑی عزت تھی، ایسے ہی اپنے ملک کے تمام علماء ودعاۃ سے بڑی محبت تھی اور ان کی عزت وتوقیر میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے تھے اور نہ کبھی اپنی رائے زبردستی کسی پر ٹھونستے تھے، ان سب امور کے ساتھ اپنی تعریف بھی پسند نہیں کرتے تھے، سیکرٹری حضرات کو تاکید کی تھی کہ کسی بھی جانب سے تعریف یا خدمت آئے تو آپ کو نہ بتایا جائے۔ ’’أحب ان أخرج الیکم وانا سلیم الصدر‘‘ کی یہ کتنی سچی پیروی تھی۔
ایک سوڈانی شیخ نے ایک بار مسجد کے اندر وعظ وتذکیر کی اجازت لی اور اثنائے تقریر شیخ علیہ الرحمۃ کی تعریف شروع کر دی، چند لمحے آپ بڑے تحمل سے بیٹھے رہے (کیونکہ بیچ میں ٹوکنا آپ کی عادت نہ تھی) لیکن یہ سنتے ہی ’’ شیخ موصوف جیسا عالم وعابد روئے زمین پر نہ ہوگا‘‘ رہا نہ گیا، تقریر رکوادی اور فرمایا علم غیب تو اللہ تعالیٰ کو ہے ہم اور تم کیا جانیں روئے زمین پر کہاں کہاں کیسے کیسے اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے موجود ہیں، (ہو اعلم بمن اتقی) اللہ ہی بہت جانتا ہے کہ کون متقی ہے۔
ذکر وفکر، عبادت وریاضیت بے مثال تھی، لیکن اظہار نہ ہونے دیتے، ایک بار تفسیر کے درس میں امام ابو حنیفہؒ اور امام شافعیؒ کے بارے میں ذکر آیا کہ وہ ایک رات میں قرآن کریم ختم کر لیا کرتے تھے، شیخ البراک بیٹھے ہوئے تھے، ایک لڑکے نے سوال کیا یہ کیسے ممکن ہے، ایک رات میں کوئی پورا قرآن پاک ختم کرلے، آپ کی زبان سے پھسل گیا (یمکن ذلک وانا جرتبہ فی اللیایی الطویلۃ) کہ یہ ممکن ہے اور لمبی راتوں میں میں نے اس کا تجربہ بھی کیا ہے، یہ کہہ کر چپ ہوگئے، افشاء راز پر غمگینی آپ کے چہرے سے عیاں تھی، شیخ البراک نے دوبارہ بات لوٹائی اور کہا: شیخ آپ نے اس کا تجربہ کیا ہے؟ لیکن پھر آپ نے کوئی جواب نہیں دیا۔