کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 77
عقیدہ ومسلک: مجدد اسلام شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی دعوت توحید واصلاح کے بعد یہاں مملکت سعودی عرب میں عقیدہ ومسلک میں اعتصام بالکتاب والسنۃ ہی کا دور دورہ رہا، سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ بھی اسی کے عامل وحامل اور داعی تھے، جیسا کہ آپ نے مجموعہ فتاوی (8؍43) میں ’’العقیدۃ التی ادین بہا‘‘کے عنوان سے تحریر فرمایا ہے اور وہی عقیدہ امور بیان کیے ہیں جو سلف امت کے عقائد تھے۔ مسلکاً بھی آپ نے لوگوں کی طعنہ زنی اور ملامت کی پروا کیے بغیر بلاخوف وخطرتقلید شخصی سے بہت دور سلف صالحین کی طرح اتباع واجتہاد کی راہ اپنائی، اسی کی نصیحت کرتے اور دعوت دیتے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا اسوہ بنا یا اور ان کے سوا کسی کو معصوم نہیں سمجھتے تھے، آپ کے محاضرات (لیکچرز) اور متعدد تالیفات اس کی شاہد و مظہر ہیں، تفصیل کے لیے آپ کی کتاب وجوب لزوم السنۃ والخدر من البدعہ اور وجوب العمل بالسۃ وکفر من انکرھا اور السنۃ ومکانتہا فی التشریع ملاحظہ کی جاسکتی ہیں، ایک بار نہیں کئی بار متعدد موقع پر اس سلسلے میں آپ سے استفسار کیا گیا، تو امام مالک رحمہ اللہ کا یہ قول دہرا دیا، کل یؤخذ برائہ ویرد الاصاحب قبر ہذا،وفات سے چند ہفتے قبل ایک شاگرد نے مسئلہ دریافت کیا، آپ کے جواب پر اس نے کہا امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تو اس بار ے میں ایسا کہتے ہیں فوراً جواب دیا ’’ابن تیمیہ بھی ہماری طرح انسان ہی تھے، جن سے خطاوصواب کا ظہور ممکن ہے، بات تو وہی قابل قبول ہوگی جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی ہے‘‘ کبھی کسی امام کے بارے میں کہا جاتا کہ وہ یہ فرماتے ہیں، تو الزامی جواب میں کہتے ’’ کیا وہ نبی یا رسول تھے جو ان کی بات واضح دلیل کی موجود گی میں رد نہیں کی جاسکتی؟‘‘ ان تمام امور کے پیش نظر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ آپ کا مسلک وہی تھا جو کسی شاعر نے کہا ؎ اصل دیں آمد کلام اللہ معظم داشتن پس حدیث مصطفی بر جاں مسلم داشتن