کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 75
غریب خاندان میں آنکھیں کھولیں، شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی دعوت وتجدید کے بعد پھر سے اس سرزمین مقدس پر شاہ مذکور کی تعمیری واصلاحی کو ششیں رنگ لا رہی تھی، ماحول پر سکون اور دینی تھا، آل الشیخ کے فاضل علماء تشفگان علوم شرعیہ کی سیرابی کے لیے مسند علم ودرس سجائے بیٹھے تھے، چنانچہ آپ نے شیخ محمد بن عبداللطیف آل الشیخ، شیخ صالح بن عبدالعزیز آل الشیخ سے ودیگر علماء شیخ سعد بن وماص البخاری، شیخ حمد بن فارس وغیرہ سے اکتساب علم کیا اور سب سے زیادہ اس وقت کے مفتی دیار سعودیہ سماحۃ الشیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ کے دامن سے تقریباً دس سال تک وابستہ رہے اور انہیں کے پاس تقریباً سارے علوم شرعیہ کی تکمیل کی، گو آپ کے والد محترم کا انتقال ہو چکا تھا، لیکن والدہ محترمہ نے تعلیم وتربیت اور علوم اسلامیہ سے آراستہ وپیراستہ کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا، ان کی کوششیں اوردعائیں، اساتذہ کرام کی خوصوصی توجہ، موصوف کی ذاتی تگ ودو، خلوص وللہیت اور زبردست قدرتی قوت حافظہ بار آور ہوئے، اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے سن بلوغت کو پہنچنے سے پہلے ہی قرآن کریم حفظ کرلیا تھا، عمر عزیز کی بیس منزلیں طے کرتے ہوئے بے شمار احادیث، توحید ومصطلح، فرائض اور علم نحو کی مستند کتابوں کے متون واشعار زبانی یاد کر چکے تھے۔ چودہ سال کی عمر میں بنیائی کمزور ہوئی اور بیس سال کے ہوئے تو بینائی بالکل جاتی رہی، دنیا اندھیری ہو چکی تھی، نوربصارت چھن چکا تھا، لیکن خالق کائنات نے نور بصیرت بے پناہ عطا فرمادیا تھا، صبر وشکر سے کام لیا، عزم وحوصلہ لے کر اٹھے، زبان حال سے کہتے ہوئے:
روشن کریں گے نور سے ایسے چراغ ہم
بجھ بھی اگر گئے تو اجالا نہ جائے گا
اور پھر امت مسلمہ کی راہنمائی اور امداد وفائدہ رسانی کے لیے کمربستہ ہوگئے، آپ کے استاذ محترم شیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ نے اپنے اس ہونہار طالب علم کی قوت پرواز کو بھانپ لیا تھا، ملک عبدالعزیز سے سفارش کی اور آپ کے نہ چاہنے کے باوجود آپ کو قصبہ ولم کا قاضی بنا دیاگیا اور یہیں سے آپ کی بے لوث خدمات جلیلہ کا دور شروع ہوا جس کی تفصیل آگے