کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 73
واتباع اور سلف صالحین، ائمہ ومحدثین سے لے کر آج تک ایسے بے شمار حادثے برداشت کیے، ہمارے مربی ومعلم سماحۃ الشیخ ابن باز کی وفات بھی ایک ایسا ہی حادثہ ہے جس کی تلافی محال ہے، موصوف سے میری تقریباً اٹھا رہ سال ملاقات تھی، یہ 1402 ہجری رجب کا مہینہ تھا جب شیخ موسی عسیری اس وقت کے امام مسجد الیحییٰ نے ناچیز کا تعارف عالم اسلام کی عظیم شخصیت ابن باز رحمہ اللہ سے کرایا، بڑی محبت وپیار سے خوش آمدید کہا، تو فیق ونجاح کی دعائیں دیں اور اپنی کوٹھی میں اپنے ساتھ رہائش کی پیش کش کی، اس طرح دین دنیا کی سعادتوں سے بھر پور اس بندہ عاصی کا آپ کے ساتھ روحانی سفر شروع ہوا، اور بعض احباب کے تعاون اور اللہ کے فضل وکرم سے علم وفن، اخلاق وآداب، عمل وجہاد کے اس عظیم پیکر سے استفادے کا موقع میسر آگیا تھا اس وقت سے لے کر آخردم تک موصوف نے اتنی محبت اتنے خلوص اور اتنے پیار سے نوازا کہ آج ہر قدم ہر لمحہ ان کی جدائی پر بڑا شاق گزرتا ہے، زبان وقلم صدمے سے نڈھال ہیں، لیکن یہ صدمہ وغم تنہا میرا تو نہیں ساری امت کا غم ہے وہ ساری امت سے ہی ایسی محبت رکھتے تھے اور سب کے ہی ہمدرد وغمگسار تھے، اسی لیے تو آپ کو فقید
[1]
[1] (آپ نے شیخ الجامعہ مولاناعبد الوحید بنارسی، مولانا صفی الرحمن مبارکپوری، مولانا عبد المعید بنارسی، مولانا رئیس ندوی، مولانا عابد حسین بستوی، مولانا شمس الحق اور ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری (تغمدہم اللہ بواسع رحمتہ ورحمہم)، اور محترم جناب مولانا عبد السلام مدنی اور مولانا انیس الرحمن اعظمی سے بھرپور استفادہ کیا۔
جامعہ سلفیہ میں تعلیم کے دوران الٰہ آباد بورڈ سے عا لمیت کا کورس بھی پاس کر لیا۔ جامعہ سلفیہ بنارس سے فراغت کے بعد (B.U.M.S.) کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں چلے گئے۔ وہاں ابھی آپ کو تقریباً دو سال کا عرصہ گزرا تھا کہ مدینہ یونیورسٹی میں آپ کو داخلہ مل گیا؛ چنانچہ آپ علی گڑھ سے تعلیم مکمل کیے بغیر مدینہ یونیورسٹی چلے آئے اور وہاں سے آپ نے سن 1402ہجری میں فیکلٹی آف حدیث کا چار سالہ کورس مکمل کیا۔ مدینہ میں آپ نے شیخ محمد عمر فلاتہ، شیخ عبد القادر سندھی، شیخ ربیع ہادی مدخلی، شیخ سلامہ مصری، شیخ دکتور ضیاء الرحمن اعظمی وغیرہم سے خوب خوب استفادہ کیا۔
جامعہ اسلامیہ مدینہ سے فراغت کے بعد آپ کی تقرری ریاض کے ادارہ ’’جمعیۃ تحفیظ القرآن‘‘ میں ہو گئی اورپندرہ سال تک اس جمعیت کے ماتحتی میں چلنے والے ادارہ معہد القرآن الکریم کے متوسطہ اور ثانویہ میں حدیث، مصطلح الحدیث، فقہ، اصول فقہ، سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم، قرآن کریم اور علوم قرآن کی تدریس کی خدمت انجام دیتے رہے۔ شیخ فریان رحمہ اللہ نے ریاض آتے ہی تحفیظ القرآن کے لیے علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے گھر کے ((