کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 44
علمائے امت سے شدید محبت اور خاص لگاؤ کی وجہ سے کیا۔ علامہ ابن باز رحمہ اللہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے علمائے امت اسلامیہ کے نیٹ ورک سے کلی طور پر واقف تھے اور بلاتفریق مسلک ومذہب ان کی بے حد عزت کرتے تھے۔ جب آپ کو کسی عالم کی توہین کے بارے میں معلوم ہوتا تو آپ تڑپ اٹھتے تھے اور عالم کے بارے میں آپ کی زبان سے کلماتِ خیر نکلنے لگتے تھے۔ سیدقطب رحمہ اللہ کو جب حکومتِ مصر نے پھانسی کی سزا سنائی تو یہ خبر پوری دنیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی مگر پوری دنیا سے احتجاج کی کوئی ایک آواز بھی بلند نہیں ہوئی۔ ظالم مظلوم کو پھانسی کی سزا سنا کر انسانیت کا مذاق اڑا رہا تھا اور بے شرمی کا ننگا ناچ ناچ رہا تھا لیکن علامہ ابن با رحمہ اللہ انتہائی بے چین اور بے قرار تھے۔ شیخ محمد مجذوب کو آپ نے بلایا اور فوراً ایک ٹیلی گرام لکھوایا۔ ٹیلی گرام کا مضمون سیاسی نہیں بلکہ غیرتِ اسلامی سے پر تھا؛ حتیٰ کہ اس میں قرآن کریم کی یہ آیت بھی لکھوا ڈالی: ﴿وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِیْہَا وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ لَعَنَہٗ وَ اَعَدَّلَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًا﴾ [النساء:93] ’’اور جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی جزا جہنم ہے، اس میں ہمیشہ رہنے والا ہے اور اللہ اس پر غصے ہوگیا اور اس نے اس پر لعنت کی اور اس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کیا ہے۔ ‘‘ شیخ محمد مجذوب کہتے ہیں کہ میرے خیال میں اس قسم کا خط پوری دنیا میں صرف شیخ ابن باز رحمہ اللہ ہی نے لکھوایا تھا اور سرکش ظالموں کو ان کے خطرناک انجام سے ڈرایا تھا۔[1] اس واقعے سے اندازہ لگائیں کہ علامہ ابن باز رحمہ اللہ کو دنیا کے عرض وطول میں پھیلے ہوئے علمائے کرام سے کتنی محبت تھی اور ان کے درد وغم میں کس قدر برابر کے شریک تھے۔ (7)علامہ ابن باز رحمہ اللہ غریبوں اور مسکینوں کا بڑا لحاظ رکھتے تھے: علامہ ابن باز رحمہ اللہ غریبوں اور مسکینوں کے ساتھ رہنا پسند فرماتے تھے جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
[1] دیکھئے :کتاب: مواقف مضیئۃ فی حیاۃ الإمام عبد العزیز بن باز، ص:85۔