کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 43
علامہ ابن باز رحمہ اللہ طلبہ کا کتنا خیال رکھتے تھے اس کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک دفعہ آپ کو بتلایا گیا کہ معہد شرعی (شریعہ کالج) کے طلبہ رات اور دن کا کھانا نہیں کھا سکے ہیں، کیونکہ فی الحال پیسوں کی قلت ہے اور راشن نہیں آ سکا ہے۔علامہ ابن باز رحمہ اللہ یہ بات سنتے ہی بے چین وبے قرار ہو گئے اور ان کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ انھوں نے اسی وقت اپنی گاڑی بیچنے کا حکم دیا؛ تاکہ ان طلبہ کے کھانے کا انتظام کیا جا سکتے۔ چنانچہ ان کی گاڑی فروخت کر دی گئی اور اس کے پیسے سے طلبہ کا راشن خریدا گیا۔ واضح رہے کہ ان دنوں علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے پاس صرف یہی ایک گاڑی تھی جسے وہ استعمال کرتے تھے۔[1] اس واقعے سے اندازہ لگائیں کہ علامہ ابن باز رحمہ اللہ طالبانِ علوم نبوت کا کتنا زیادہ خیال رکھتے تھے اور ان سے کتنی محبت تھی!! حافظ محمد الیاس عبد القادر مدنی حفظہ اللہ ہندستان کے ان علما میں سے ہیں جو اعلیٰ اخلاق کے مالک ہیں۔ میں نے جن علما کو دیکھا ہے جوکہ دوسروں کی غیبت میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتے، ان میں سے ایک حافظ صاحب بھی ہیں۔ جب آپ ان سے ملیں گے تو انتہائی خندہ پیشانی کے ساتھ وہ آپ کا استقبال کریں گے اور بہت ہی اچھے انداز میں محوِ گفتگو ہوں گے۔ انھوں نے کافی عرصے تک علامہ ابن باز رحمہ اللہ کی ملازمت اختیار کی؛ بلکہ علامہ ابن باز رحمہ اللہ کی خاص مسجد میں امامت کا فریضہ بھی وہی انجام دیتے تھے اور آج بھی وہی امام ہیں۔ انھیں علامہ ابن باز رحمہ اللہ سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ سچ پوچھیں تو ان کا اخلاق دیکھ کر اور ان کی گفتگو سن کر پہلے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ واقعی وہ علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے شاگردِ خاص ہیں۔ ان کا بیان ہے کہ ایک دفعہ ہندستان کے معروف ومشہور ادیب مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ علامہ ابن باز رحمہ اللہ سے ملاقات کی غرض سے تشریف لائے۔ کافی دیر تک باتیں ہوتی رہیں اور جب ندوی صاحب واپس ہونے لگے تو علامہ ابن باز رحمہ اللہ بھی ان کا ہاتھ پکڑے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور دروازے تک ان کو چھوڑنے آئے۔ ایسا آپ رحمہ اللہ نے
[1] دیکھئے کتاب: مواقف مضیئۃ فی حیاۃ الإمام عبد العزیز بن باز، ص: 37،38۔