کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 42
پڑھانے سے انکار کر دیا۔ حج سے شیخ کی واپسی پر جب آپ کو اس کی اطلاع دی گئی کہ اس شخص کا انتقال ہو چکا ہے تو آپ نے افسوس کا اظہار کیا اور جب یہ بات بتائی گئی کہ امام مسجد نے اس پر نماز جنازہ نہیں پڑھائی تو آپ نے بلاتأمل فرمایا کہ امام مسجد نے غلطی کی۔ پھرفرمایا کہ مجھے اس کی قبر پر لے چلو۔ چنانچہ آپ نے اس کی قبر پر نماز جنازہ ادا کی اور اس کے لیے دعائے خیرفرمائی۔ [1] (6) علامہ ابن باز رحمہ اللہ علم اور علما کا بے حد احترام کرتے تھے: علامہ ابن باز رحمہ اللہ علم اور اہل علم کی بہت زیادہ توقیر کرتے تھے۔ جب ان کی خدمت میں طلبہ یا علما آتے تو آپ ان کی آمد سے بہت زیادہ خوش ہوتے اور ان کی خدمت خود کرنا چاہتے۔ خاص کر طلبہ اور علما کے تعاون میں آپ کی مثال نہ تھی۔ کیونکہ آپ جانتے تھے کہ طالبانِ علوم نبوت اور علمائے امت اسلامیہ ہی کی دو جماعتیں ایسی ہیں جن کے کندھوں پر پوری امت کا بوجھ ہوتا ہے۔ یہی لوگ نبیوں کے وارث ہوا کرتے ہیں اور اس روئے زمین پر ان سے زیادہ مظلوم شاید ہی کوئی ہے کہ وہ مفت میں لوگوں کو راہِ راست پر لانے کی کوشش میں رہتے ہیں جبکہ لوگ انھیں اہمیت دینے میں کنجوسی سے کام لیتے ہیں۔ میں نے مولانا عطاء الرحمن مدنی حفظہ اللہ کی کتاب ’’سمندر میں چھلانگ‘‘ میں آج سے کوئی دس سال قبل پڑھا تھا کہ ایک دفعہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ ریاض تشریف لائے تھے۔ ان دنوں وہ جامعہ اسلامیہ مدینہ میں زیرتعلیم تھے۔ ریاض جب علامہ ابن باز رحمہ اللہ کی مجلس میں حاضر ہوئے تو ان کے ساتھ میں بچے بھی تھے۔ یہ سردی کا زمانہ تھا۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے مولانا عطاء الرحمن مدنی کو اپنے پاس بلایا اور جیب سے کچھ ریال چھپا کر انھیں دیے اور آہستہ سے ان کے کان میں فرمایا کہ ان پیسوں سے اپنے لیے اور اپنے بچوں کے لیے سردی کا لباس خرید لینا۔ اس واقعے سے اندازہ لگائیں کہ علامہ ابن باز رحمہ اللہ طلبہ کا کتنا خیال رکھتے تھے۔
[1] دیکھئے: اخبار المدینۃ، عدد: 13173، بحوالہ: مواقف مضیئۃ فی حیاۃ الإمام عبد العزیز بن باز، ص: 113۔