کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 41
اپنے آپ کو شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا شاگرد بتلاتا ہے۔ میں اس واقعے کا چشم دید گواہ ہوں۔ مزدور سے وہ اس طرح الجھ پڑا جیسے ایک اناڑی آدمی الجھتا ہے۔ میں یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔مزدور کی کوئی غلطی نہیں تھی۔ وہ شخص خواہ مخواہ مزدور پر زبان درازی کرتا جا رہا تھا حتیٰ کہ وہ مزدور سے یہ کہنے لگا کہ ’’ارے! تمھیں کیا معلوم، میں وہ آدمی ہوں جو عوام میں تین تین گھنٹے تقریریں کرتا ہوں !!....میں یہ ہوں اور میں یہ ہوں !!....تمھیں میرے بارے میں معلوم نہیں !!....۔‘‘ میرے قارئین کرام! بے چارے مزدور کو جب تک اپنے ہاں سے بھگا نہیں دیا اس آدمی کو چین نہیں آیا۔ وہ بھی اپنے کو شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا شاگرد گردانتا ہے۔ یقین مانیں، میں اس آدمی کو اس دن سے قبل بہت کچھ سمجھتا تھا لیکن اس دن سے اس کی اہمیت میری نظر میں اور میرے ساتھ جو ساتھی تھے، ان کی نظر میں گر گئی۔ ایسے لوگوں کے لیے میں علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے صبر وتحمل کے بارے میں بتلانا چاہوں گا، انھیں چاہیے کہ وہ علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے صبر وتحمل کے بارے میں بھی جانیں اور جانیں ہی نہیں بلکہ اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ صبر وتحمل ایسی صفت ہے جو کسی بھی انسان کو اعلیٰ اخلاق کے زمرے میں شامل کر دیتی ہے۔ ذرا علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے تحمل اور صبر کا یہ واقعہ سنئے۔ علامہ ابن باز رحمہ اللہ سعودی عرب کے معروف شہر الدلم میں قاضی تھے۔ الدلم سعودی عرب کے دار الحکومت ریاض کے جنوب میں کوئی سو کلو میٹر کے فاصلے پر ایک شہر ہے۔ علامہ ابن باز رحمہ اللہ کئی برسوں تک اسی شہر میں بحیثیت قاضی رہے۔ یہاں قاضی کی حیثیت سے قیام کے دوران ایک دفعہ مجلس القضاء میں ایک شخص داخل ہوا جو بکثرت گالی گلوچ کیا کرتا تھا۔ چنانچہ اس نے بھری مجلس میں شیخ ابن باز رحمہ اللہ کو بھی گالی دی اور انھیں برا بھلا کہا۔ جبکہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ اس کے جواب میں بالکل خاموش تھے، اسے کچھ جواب نہیں دیا۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ پھر جب شیخ حج پر تشریف لے گئے تو اس کا انتقال ہو گیا۔ جب اس کی میت نماز جنازہ کے لیے مسجد میں لائی گئی تو اس مسجد کے امام شیخ عبد العزیز بن عثمان نے اس کی نمازِ جنازہ