کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 40
(( والذی نفسی بیدہ! ما لقیک الشیطان قط سالکا فجا إلا سلک فجا غیر فجک۔))
’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جب بھی تم سے شیطان چلتے ہوئے راستے میں مل جاتا ہے تو وہ تمھارے خوف سے اپنی راہ بدل لیتا ہے۔‘‘[1]
علامہ ابن باز رحمہ اللہ کی بے باکی اور حق گوئی کا ہی نتیجہ تھا کہ شیطان آپ سے بہت خوف کھایا کرتا تھا۔شیخ بدر بن نادر المشاری کہتے ہیں کہ مجھ سے ایک جھاڑ پھونک کرنے والے قاری نے بتلایا کہ اس نے ایک دفعہ ایک آدمی پر دم کیا جس کے اوپر جن سوار ہو چکا تھا۔ وہ جن بھاگنے کو تیار نہیں تھا۔ جب اس کے اوپر کافی دیر تک دم ہوتا رہا تو اس کی آواز بلند ہوئی۔ اس کی زبان کھلی تو قاری نے بھاگنے کو کہا۔ جن کہنے لگا کہ میں اس آدمی سے کبھی نہیں بھاگ سکتا۔ قاری نے کہا کہ اگر تو اسے نہیں چھوڑتا تو میں تجھے شیخ ابن باز کے پاس لے جاؤں گا۔ یہ سننا تھا کہ جنات چیخنے لگا اور کہنے لگا: نہیں نہیں میں چھوڑ کر جاتا ہوں، اللہ کی قسم! جب ہم لوگ شیخ ابن باز کو دیکھتے ہیں تو ان کے خوف سے راستہ بدل لیتے ہیں۔[2]
جی ہاں، یہ ہوتی ہے حق گو اور عالم ربانی کی خصوصیت!!
(5) علامہ ابن باز رحمہ اللہ صبر وتحمل میں اپنی مثال آپ تھے:
میں ایک آدمی کے پاس تھا۔ ایک مزدور ان کے گھر کام کے لیے آیا ہوا تھا۔مزدور کسی بات میں اس آدمی سے باتیں کرنے لگا۔ وہ صاحب مزدور سے الجھ پڑے۔ مزدور نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میں اپنے فن کا ماہر ہوں، آپ کو اس بارے میں کچھ معلومات نہیں ہے اس لیے جیسے میں کام کر رہا ہوں مجھے کرنے دیں، اگر میرا بنایا ہوا یہ سامان خراب نکلا تو اس کی ذمے داری میرے اوپر ہے۔ جس آدمی کی بات میں یہاں لکھ رہا ہوں وہ بھی
[1] دیکھئے : صحیح مسلم (2396)۔
[2] مواقف مضیئۃ فی حیاۃ الإمام عبد العزیز بن باز، ص: 79۔