کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 39
آنکھوں کے ذریعے آزمائش میں ڈالا جاتا ہے اور پھر صبر وتحمل سے کام لیتا ہے تو میں اس کے بدلے میں اسے جنت دوں گا۔‘‘[1] (4) علامہ ابن باز رحمہ اللہ حق گو اور عالم ربانی تھے: علامہ ابن باز رحمہ اللہ ایک حق گو عالم تھے۔ آپ منکر بات جب بھی دیکھتے اسے مٹانے کی کوشش کرتے۔ منکر کا مرتکب خواہ بڑے سے بڑا ہی کیوں نہ ہو، آپ خاموش رہنے والے نہیں تھے۔ ابوعبد الرحمن بن عقیل ظاہری کا بیان ہے کہ شاہ سعود رحمہ اللہ کی آمد پر ان کی گاڑی کے پہیے کے پاس چند جاہلوں نے خوشی میں ایک جانور ذبح کیا۔ یہ واقعہ مکہ کے علاقہ صفاۃ میں پیش آیا۔ جب علامہ ابن باز رحمہ اللہ کو اس بات کی خبر لگی تو وہاں تشریف لے گئے اورجانور کے گرد گھوم گھوم کر کہنے لگے: یہ حرام ہے، ایسا کرنا حرام اور ناجائز ہے!!....علامہ ابن باز رحمہ اللہ بآوازِ بلند یہ کہتے جاتے تھے اور ان کی آنکھیں آنسو بہاتی جا رہی تھیں۔ جب اس بات کی اطلاع شاہ سعود رحمہ اللہ کو دی گئی تو انھیں جاہلوں کی اس حرکت پر بہت غصہ آیا اور فوراً سارا گوشت چڑیا گھر میں پھینکوا دیا گیا۔ اس کے بعد شاہ سعود رحمہ اللہ علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے پاس آئے اور ان کے اس طرز پر بہت بہت شکریہ ادا کیا۔[2] اس واقعے سے علامہ ابن باز رحمہ اللہ کی حق گوئی اور بے باکی کا اندازہ لگانا آسان ہے۔ دراصل علامہ ابن باز رحمہ اللہ وہ عالم ربانی تھے جن سے شیطان بھی خوف کھاتا تھا اور اپنی راہ بدل لیتا تھا۔ یہ خصوصیت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو حاصل تھی کہ وہ جس راستے سے چلتے، شیطان ان کے خوف سے اپنا راستہ بدل لیتا تھا۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
[1] یہ حدیث صحیح ہے اور حدیث کی متعدد کتابوں میں ہے دیکھئے: مسند احمد (12468)، مسند ابویعلیٰ (3711)، سنن بیہقی (3؍375)، الادب المفرد (534)۔ [2] مواقف مضیئۃ فی حیاۃ الإمام عبد العزیز بن باز، ص: 32۔