کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 37
ہے۔ کسی نابینا کے لیے بار بار کتاب دیکھنا کوئی سہل کام بھی نہیں ہے۔ ہاں شیخ ابن باز رحمہ اللہ کے بارے میں لکھنے والوں نے لکھا ہے کہ وہ کتابیں پڑھوا کر ہر روز کچھ نہ کچھ سنا کرتے تھے اور مسائل کی تحقیق خود کرنے کے عادی تھے۔ لیکن بسا اوقات کسی اہم موضوع پر جو آپ کا اختصاص بھی نہیں ہوتا، کچھ بیان کرنے کی نوبت آ جاتی تو بالترتیب اس طرح بیان فرماتے جیسے آپ اس فن کے ماہر ہیں اور ابھی ابھی اس سلسلے میں مطالعہ فرما کر آئے ہوں۔ مسجد نبوی شریف کے مدرس جناب ڈاکٹر عطیہ سالم رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ علامہ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کی بے پناہ ذہانت اور حاضر دماغی سے میں بلکہ میرے ساتھ جامعہ کے تمام طلبہ اور اساتذہ بھی انتہائی مرعوب تھے۔ ایک دفعہ علم الاجتماع پر لیکچر کی غرض سے کسی صاحب علم شخصیت کو جامعہ میں دعوت دی گئی تھی، لیکچر سے قبل لیکچرار نے اپنے لیکچر کا عنوان اور اس کے چھ نکات اور اس سے متعلق متعدد جزئیات اسٹیج پر موجود بلیک بورڈ پر لکھ دیے۔ بعد ازاں ہر نکتہ پر مفصل بحث کی۔ لیکچر کا دورانیہ تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ تھا، بعد ازاں لیکچرار نے شیخ سے اس لیکچر پر تبصرہ اور تعلیق کرنے کی درخواست کی۔ شیخ نے فی البدیہہ لیکچر کے چھ نکانت اور اس کی جزئیات پر اس قدر بارک بینی اور ترتیب سے انتہائی علمی تبصرہ فرمایا کہ لیکچر کے کسی جز کو نہیں چھوڑا۔ جبکہ یہ کسی فقہی موضوع پر نہیں تھا؛ بلکہ خالص علم الاجتماع پر مبنی تھا۔ شیخ کے تبصرہ اور تعلیق نے تمام حاضرین کو مبہوت کر دیا، کیونکہ جس قسم کا تبصرہ شیخ نے فرمایا، ایک صاحب بصارت عالم دین بورڈ پر لکھے گئے نکات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی تبصرہ نہیں کر پاتا۔[1]
ڈاکٹر محمد بن سعد الشویعر کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ علمی بحث چل رہی تھی۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے حدیث کے ایک کلمہ کے بارے میں مجھے تحقیق کرنے کو کہا اور مجھے یہ بھی بتلایا کہ اس کلمہ کو حدیث کی فلاں فلاں کتاب کے فلاں فلاں باب میں دیکھا جا سکتا ہے۔ میں نے کافی بحث وتحقیق کی مگر مجھے وہ کلمہ نہیں مل پایا۔ چنانچہ میں نے شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے آ کر کہا کہ میں عاجز آ چکا ہوں،اس کلمے کے بارے میں مزیدبحث وتحقیق میرے بس کا روگ نہیں۔
[1] مواقف مضیئۃ فی حیاۃ الإمام عبد العزیز بن باز، ص: 65۔