کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 36
نہیں سوچا کہ وہ ایک ایسے ملک میں ہیں جہاں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا مسلک غالب ہے، اس لیے حنبلی مسلک کے مطابق ہی فتویٰ دیا جائے۔ بلکہ انھوں نے علم کی بنیاد ہی پر ہمیشہ فتویٰ دیا۔ ان کی علمی بصیرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کئی دفعہ کتابوں میں طباعت کی باریک غلطیاں بھی پکڑ لیتے تھے۔ حالانکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ وہ ایک نابینا انسان تھے۔ علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ جیسے محدث جن کا ہم پلہ ان کے زمانے میں پوری دنیا میں کوئی اور نہ تھا، انھوں نے بھی علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے علم کی شہادت دی ہے۔آج بھی اگر کوئی شخص ان کی کتابوں کا مطالعہ کرے گا تو اسے اندازہ ہوگا کہ علامہ ابن باز رحمہ اللہ کتنے بڑے عالم تھے۔ خاص کر ان کے فتاویٰ کا مطالعہ کرنے کے بعد تو کوئی یہ کہے بغیر رہ ہی نہیں سکتا کہ بھلے ہی اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھ کی بصارت چھین لی تھی مگر وہ علم کی بصیرت سے اتنے مالا مال تھے کہ پوری دنیا میں ان کا ثانی نہیں تھا۔ وہ اپنے فن کے امام تھے۔ اسی لیے کئی اہلِ علم نے ان کے بارے میں کہا ہے کہ وہ علم کے پہاڑ تھے۔
علم کے ساتھ عمل کا پیکر ہونا یہ ایک ایسی خوبی ہے جو کسی بھی انسان کو اوجِ ثریا پر پہنچاتی ہے۔ علامہ ابن باز رحمہ اللہ عالم نہیں بلکہ ایک باعمل عالم تھے۔ عالم ہونا اور بات ہے اور عالم باعمل ہونا اور بات۔علامہ ابن باز رحمہ اللہ نے جو کچھ علم سیکھا تھا اس کی عملی تصویر تھے۔ انھوں نے کبھی بھی اپنے قول کے خلاف عمل نہیں کیا۔ وہ جو کچھ کہتے اس پر عمل کرتے اور یہی وہ خوبی تھی جو انھیں ربانی علما کی صف میں لا کھڑی کرتی ہے۔ بہت سارے علماء کو دیکھا گیا ہے جن کے قول اور عمل میں جا بجا تضاد ہوتا ہے اور جس کی وجہ سے وہ معاشرے میں اپنا اثر ورسوخ نہیں بنا پاتے ہیں۔ علامہ ابن باز رحمہ اللہ نے اپنی پوری زندگی میں کبھی بھی ایسا نہیں ہونے دیا کہ ان کا کوئی قول ان کے کسی عمل سے متضاد ہو۔
(3)علامہ ابن باز رحمہ اللہ بڑے ذہین اور حاضر دماغ تھے:
علامہ ابن باز رحمہ اللہ کی خوبیوں میں سے ایک عظیم خوبی یہ تھی کہ آپ نابینا ہونے کے باوجود مسائل کا استنباط اور استدراک ایسے کرتے تھے جیسے کتاب میں مطالعہ کر کے کوئی کرتا