کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 35
وغیرہ میں پڑھ رکھا ہے؛ البتہ ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوا اور شیخ بھی مجھے نہیں جانتے ہیں۔میں نے مذکورہ نصرانی شخص کا چیک شیخ ابن باز رحمہ اللہ کی خدمت میں پہنچایا اور اس کے بارے میں بتلایا تو شیخ رحمہ اللہ نے مجھ سے پوچھا: کیا اس نصرانی نے اسلام قبول کیا ہے؟ میں نے بتلایا کہ مجھے آج کی تاریخ میں اس کے اسلام کے بارے میں کوئی خبر نہیں ہے۔ میں اس آدمی کی شیخ رحمہ اللہ سے بے حد عقیدت کو دیکھ کر بڑا تعجب میں تھا۔[1]
یہ تھا علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے اعلیٰ اخلاق اور سخاوت کا اثر کہ غیرمسلم بھی آپ کی آواز میں اپنی آواز ملانا اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتے تھے۔
معاف کیجیے گا، مجھے علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے ایک شاگرد کے ساتھ کچھ دن گزارنے کا موقع ملا۔ میں اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر لکھ رہا ہوں۔ میں نے علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے مذکورہ شاگرد سے سیکڑوں بار ان کے بارے میں ذکر خیر کرتے ہوئے سنا۔مگر یہ لکھتے ہوئے میرا ہاتھ کانپ رہا ہے کہ شاید یہ غیبت نہ ہو جائے کہ علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے جن اخلاق وکردار کا وہ شاگرد بار بار تذکرہ کرتا تھا، اس سے وہ اتنا ہی دور تھا۔ حالانکہ علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے نمایاں اخلاق وکردار کو ہمیں اپنانے کی بے حد ضرورت ہے۔ ہم دوسروں کی خوبیاں بیان تو کرتے ہیں لیکن انھیں اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اسی طرح دوسروں کی خامیوں پر تبصرہ کرنے کے لیے تو اپنی زبانیں بار بار کھولتے ہیں مگر یہ کوشش کبھی نہیں کرتے کہ ان خامیوں کو اپنے اندر سے بھی نکال باہر کیا جائے!!
(2) علامہ ابن باز رحمہ اللہ علم کے پہاڑ اور عمل کے پیکر تھے:
علامہ ابن باز رحمہ اللہ کو جن لوگوں نے قریب سے دیکھا ہے یا جو لوگ ان کی کتابیں پڑھتے ہیں انھیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگا کہ علامہ رحمہ اللہ علم کا وہ مضبوط اور بھاری پہاڑ تھے جو اپنے اصولوں سے رتی برابر بھی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ علامہ موصوف نے کبھی بھی یہ
[1] اس واقعے کی تفصیل کے لیے دیکھئے: اخبار المدینۃ، عدد: 13185، بحوالہ: مواقف مضیئۃ فی حیاۃ الإمام عبد العزیز بن باز، ص: 185۔