کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 34
اخلاقی پہلو دیکھ لو، معلوم ہو جائے گا کہ اِس دھرتی پر امن وآشتی کا پیغام لانے والا اسلام اخلاق کے ذریعے پوری روئے زمین پر سکون اور پیار ومحبت کا جھنڈا گاڑنا چاہتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں قرآن کریم میں یہ شہادت دی گئی ہے کہ آپ اخلاق کی بلندی پر فائز تھے۔ آپ کے اخلاقِ کریمانہ ہی کا اثر تھا کہ مکی زندگی سے مدنی زندگی میں قدم رکھتے ہی عرب کے قبائل ایک قلیل سی مدت میں حلقہ بگوشِ اسلام ہو گئے اور عرب کے بدؤوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کو اپنا کر مشرق ومغرب اور شمال وجنوب کے لوگوں کا دل جیت لیا۔ علامہ ابن باز رحمہ اللہ بھی اخلاق کی بلندی پر فائز تھے۔ انھیں سعودی عرب کی سب سے بڑی دینی یونیورسٹی کا وائس چانسلر کا عہدہ ملا مگر انھوں نے کبھی بھی اس عہدے کی آفاقیت کو نہیں دیکھا بلکہ ہمیشہ اپنے اخلاق وکردار کی آفاقیت کو مدنظر رکھا۔ان کی نظر میں ادنیٰ اور اعلیٰ سب یکساں تھے۔ ہر ایک کے ساتھ یکساں برتاؤ کرتے اور ایک ہی انداز کے ساتھ ہر ایک کا خیرمقدم بھی کرتے۔
علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے اعلیٰ اخلاق وکردار اور لوگوں میں آپ کی غیرمعمولی مقبولیت ہی کا نتیجہ تھا کہ مسلم تو مسلم غیرمسلم بھی آپ سے اپنی محبت اور الفت کا اظہار کرتے اور آپ کی آواز میں اپنی آواز ملانا اپنے لیے فخر سمجھتے تھے۔ ذرا یہ واقعہ پڑھیں جس کے راوی جمیل بن یحییٰ خیاط ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ آج سے کوئی چودہ سال قبل (یعنی شیخ ابن باز رحمہ اللہ کی وفات سے چودہ سال قبل) ایک یورپی جدہ میں میرے آفس میں داخل ہوا۔ وہ سعودی عرب میں پٹرول کی ایک کمپنی میں شریک تجارت تھا اور کروڑ پتی تھا۔ وہ نصرانی تھا اور جدہ میں مقیم تھا۔ اس نے دس لاکھ دو سو پچاس ریال کا ایک چیک میرے حوالے کیا۔ یہ چیک شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ کے نام سے تھا۔ اس نے یہ چیک میرے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ اسے لے جا کر شیخ ابن باز رحمہ اللہ کو میری طرف سے دے دو۔ نوجوانوں کی شادی کا جو شیخ ابن باز کا مشروع ہے اسی کے لیے یہ چیک میری طرف سے ہدیہ ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا تم شیخ ابن باز کو جانتے ہو؟ اس نے کہا: ہاں میں نے ان کے بارے میں اخبارات