کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 33
پیش کیا ہے۔ علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کی شخصیت جس طرح مشہور ومعروف تھی اسی طرح علامہ ابن باز رحمہ اللہ بھی چہار دانگ عالم میں مشہور تھے۔ میں سمجھتا تھا کہ ابن باز رحمہ اللہ کی وفات کے بعد بہت سارے لوگ ان پر کتابیں لکھیں گے اور عربی زبان میں واقعی بہت ساری کتابیں لکھی بھی گئیں مگر افسوس ہے ہمارے ملکوں کے اُن احسان فراموشوں پر جنھوں نے ابن باز رحمہ اللہ سے ان کی زندگی میں بے تحاشہ فائدہ اٹھایا مگر ان کے انتقال کے بعد گو وہ انھیں بھول ہی گئے۔ ہاں علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے احسان تلے دبے ہوئے چند لوگوں کو ان کا نام لیتے ہوئے ضرور سنا جاتا ہے مگر وہ بھی نام لینے کی حد تک ہی شاید ان سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کے اوپر لازم تھا کہ وہ اس عبقری شخصیت کی سوانح لکھتے یا لکھواتے اور دنیا کو ان کی ہمہ جہت حیات کے بارے میں بتلاتے۔ مگر افسوس اور تف ہے ایسے لوگوں پر!! معاف کیجیے گا میں نہ جانے کس وادی میں داخل ہو گیا۔ بات چل رہی تھی علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے بارے میں لکھنے کی۔ غرض میں نے اپنے تمام دیگر علمی کاموں کو بالائے طاق رکھ کر آخر کار علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے بارے میں لکھنے کے لیے قلم اٹھا ہی لیا۔ لیکن چونکہ میں ہی اس کتاب کو ترتیب دینے والا ہوں جو ابھی آپ کے ہاتھ میں ہے، اس لیے اس کے اندر کی ساری باتیں مجھے معلوم ہیں۔ میں نہیں سمجھ رہا ہوں کہ کس بات کا تذکرہ کیا جائے اور کس بات کا نہیں۔ ہاں میں نے مختصر طور پر علامہ موصوف کی زندگی کے ان نکات اور خوبیوں کے بارے میں لکھنا مناسب سمجھا ہے جو کہ مسلم سماج میں ریڑھ کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان نکات کو اپنا کر واقعی اسلامی معاشرے کی تشکیلِ نو کی جا سکتی ہے۔یہ نکات علامہ ابن باز رحمہ اللہ کی خوبیوں سے تعلق رکھتے ہیں تو آئیے ہم ان خوبیوں کے بارے میں آگے پڑھتے ہیں : (1)علامہ ابن باز رحمہ اللہ بڑے اخلاق مند تھے: سبحان اللہ! میری نوکِ قلم پر سب سے پہلے جو نکتہ چڑھا ہے وہ علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے اخلاق کے حوالے سے ہے۔ دراصل اگر اسلام کی بالاتری دیکھنی ہو تو اس کی تعلیمات کا