کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 32
پانچویں ....اور ....کتاب لکھنے، یا ترجمہ کرنے، یا تحقیق کرنے میں مصروف ہوتا گیا۔ مصروفیت اتنی بڑھتی گئی کہ آج میں کتنی کتابوں پر کام کر رہا ہوں اور میری کتنی کتابیں منظر عام پر آنے والی ہیں شاید مجھے بھی ان کا علم نہیں ہے۔
شاید میرے قارئین کو مبالغہ محسوس ہو، لیکن سچ یہ ہے کہ اگر سچ لکھ دیا جائے کہ ڈیوٹی کا فریضہ انجام دینے کے باوجود اتنا سارا لکھنے پڑھنے کا کام کیسے ہو رہا ہے، تو مجھے یقین ہے کہ ہمارے اکثر قارئین کو یہ بات مضحکہ خیز معلوم ہوگی اور ہضم نہیں ہونے پائے گی۔ ہاں، اس دنیا میں میرا ایک جگری دوست ہے جس سے میں بہت پیار کرتا ہوں اور جس کو میری بات پر ضرور یقین ہوگا اور وہ چشم دید گواہ بھی ہے۔ کیونکہ میں نے اپنے اس جگری دوست کو بہت بہلا پھسلا کر اس کے قیمتی اوقات میں سے اپنے لیے مانگ رکھا ہے۔ باوجودیکہ میرا وہ دوست بھی کبھی کبھار بہت ناراض ہو جاتا ہے اور بسااوقات قلم کاغذ اٹھا کر ٹیبل سے نیچے پھینک دیتا ہے مگر میں اپنے جگری دوست کے ناز وانداز اور اس کے جذبات کو بخوبی سمجھتا ہوں کہ اس کا یہ اپنا حق ہے اور امام زہری رحمہ اللہ جیسی عظیم شخصیت کی مثال ہمارے سامنے ہے!!....
ابھی ایک ہفتہ قبل ہی میں نے علامہ صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ کے وہ سارے اداریے اکٹھے کر کے اور اسے کمپوز اور پروف ریڈنگ کروا کر پاکستان شائع ہونے کے لیے بھیجا ہے۔ بلکہ آج سے چند ہفتہ قبل پاکستان کے الفرقان ٹرسٹ سے میری کتاب’’سفارش کرو، اجر و ثواب پاؤ‘‘ شائع ہو کر منظر عام پر آئی ہے۔ یہ کتاب سعودی شہزادہ نایف بن ممدوح بن عبدالعزیز آل سعود حفظہ اللہ کی عربی کتاب ’’اشفعوا تؤجروا‘‘ کا اردو میں ترجمہ ہے اور واقعی بہت ہی جامع اور مفید کتاب ہے۔ اردو زبان میں اس موضوع پر میرے علم کے مطابق اس سے اچھی کتاب نہیں ہے۔ اس کے علاوہ آج سے کوئی چار ہفتہ قبل ساڑھے چار سو صفحات پر مشتمل میری عربی کتاب فرید بکڈپو دہلی سے شائع ہو کر منظر عام پر آئی ہے جو کہ محدث عصر علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کی حیات پر مشتمل ہے۔ میں نے علامہ البانی رحمہ اللہ پر یہ مفصل کتاب لکھ کر برصغیر ہندوپاک کے علمائے ملت کی طرف سے ان کے حق میں نذرانۂ عقیدت