کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 294
دوست کا ٹیلی فون آیا کہ یہاں کینیڈا میں لوگ یہ خبر سن کر ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں اور عجیب اضطراب کے عالم میں ہیں، تو کیا واقعی شیخ الاسلام والمسلمین کا انتقال ہوگیا، کیا یہ خبر صحیح ہے کہ عصر حاضر میں اہل سنت والجماعت کے امام دنیا سے چل بسے، کیا سلفیان عالم کے امیر اللہ کو پیارے ہوگئے؟ پھر وہ ٹیلی فون پر ہی خوب رونے لگے جس سے میری حالت اور غیر ہو گئی۔ پوری دنیا میں غائبانہ نماز جنازہ: حضرت الشیخ کی غائبانہ نماز جنازہ پوری دنیا میں پڑھی گئی، بر صغیر ہند وپاک بنگلہ دیش اور نیپال کے اہل حدیثوں نے اس کا خاص اہتمام اس لیے کیا کہ یہ حضرات مرحوم کو بالخصوص اپنا امام وامیر جانتے تھے اور ہر چھوٹے اور بڑے معاملہ میں ان سے مشورہ لیتے تھے اور اللہ کے لیے ان سے ایسی محبت کرتے تھے کہ میرے خیال میں بلاد عربیہ کے مسلمانوں کو ان کے اس والہانہ محبت کا صحیح اندازہ نہیں تھا، اسی لیے بر صغیر کی تمام اہل حدیث جماعتوں نے بالعموم اور ہندوستان کے عظیم داعی اسلام جناب مولانا مختار احمد ندوری سلفی نے جماعت اہل حدیث کی ہر جامع مسجد میں ان کی نماز غائبانہ کا اعلان کیا اور اخبارات و مجلات میں اعلان کیا کہ آج عصر حاضر میں سلفیوں کے امام د نیا سے رخصت ہو گئے اور اہل حدیث کا ہر فرد ان کے فراق میں رویا اور ہر اہل حدیث گھرا نے پر غموں کے بادل چھا گئے، مجھے معلوم ہوا کہ ان ممالک سے شائع ہونے والے دسیوں سلفی مجلات حضرت الشیخ رحمہ اللہ سے متعلق خصوصی نمبر شائع کرنے جارہے ہیں، جن میں اسلام کا علم پوری دنیا میں بلند کرنے کے لیے ان کے جہاد کا ذکر آئے گا اور اسلام خالص کے اس منہج کو بیان کیا جائے گا جس کی بنیاد قرآن وسنت پر ہے اور جس کی نشر واشاعت کے لیے میرے شیخ نے اپنی پوری زندگی لگادی۔ پہلی بار شرف دید: میں نے انہیں پہلی بار رمضان 1382ھ میں دیکھا، جب میں مدینہ یونیور سٹی میں پڑھنے کے لیے آیا، مرحوم اس وقت وائس چانسلر تھے اور ہر نووارد طالب علم کو اپنے آفس میں