کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 293
شیدائیوں کے سروں پر اس طرح تیر رہا تھا کہ اسے ایک جگہ قرار نہیں تھا، ہم جیسوں کی کیا مجال تھی کہ اس کے آس پاس بھی پھٹک سکتے اور جب جنازہ مسجد سے باہر نکلا اور مقبرہ العدل کی طرف چلا تو لوگ گاڑیوں سے اور پیدل مسجد حرام کے گرد پھیلے ہوئے سرنگوں کے راستے سے مقبرے کی طرف اس طرح چل پڑے جیسے لوگ عرفات سے مزدلفہ کی طرف نویں ذی الحجہ کی شام کو چلتے ہیں، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس بار سال میں دو حج ہوگئے۔
بات آگے نکل گئی اور ایک نہایت ضروری بات رہ گئی، امام حرم فضیلۃ الشیخ محمد بن عبداللہ بن سبیل نے خطبہ دیا، مسلمانوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات یاد دلائی اور کہا کہ ’’ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر اس حادثہ فاجعہ کا جتنا گہرا اثر پڑا مؤرخین اسلام نے اس کی تھوڑی سی عکاسی کرنے کی کوشش کی ہے، آخر کار انہوں نے اللہ کی قدرت اور دین اسلام کی نعمت کو یاد کر کے صبر وشکیبائی کو اختیار کیا اور آہستہ آہستہ پر سکون ہوئے، ہمارے شیخ بھی عصر حاضر میں اہل سنت والجماعت کے امام، عظیم محدث، علامہ دہر اور فقیہ عصر حاضر تھے‘‘ اتنا سننا تھا کہ مسجد حرام میں ہر طرف سے سسک سسک کر رونے کی آوازیں آنے لگی۔ مختصر یہ کہ بیس لاکھ سے زائد شیدائیوں کے ہجوم میں ان کا جنازہ مقبرہ پہنچا، جہاں انہیں سپرد خاک کردیا گیا۔
آسمان تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ تیرے اس گھر کی نگہبانی کرے
اللہ تعالیٰ ان پر رحمتوں کی بارش کرے اور صدیقین، شہداء اور صالحین کے درمیان انہیں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
عالم اسلام ہل گیا:
دو تین گھنٹوں میں ان کی وفات کی خبر پوری دنیا میں پہنچ گئی اور مسلمانان عالم اس طرح مضطرب وپریشان ہوئے کہ میں نے تاریخ میں اس کی مثال نہیں پڑھی، دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ان کے سیکڑوں شیدائیوں اور شاگردوں نے مجھ سے ٹیلی فون پر رابطہ قائم کیا، کوئی تعزیت پیش کر رہا تھا تو کوئی اس جانکاہ خبر کی تصدیق چاہتا تھا، کینیڈا میں مقیم میرے ایک