کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 292
برگشتہ ہوجاؤ گے۔‘‘ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت ابوبکررضی اللہ عنہ کا یہ جملہ یاد آیا کہ ’’ جو کوئی محمد کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ محمد مر گئے اور جو کوئی اللہ کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ محمد مر گئے اور جو کوئی اللہ کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ اللہ تو ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا، اس پر کبھی موت طاری نہیں ہوگی۔‘‘ اب کچھ دل کا اضطراب کم ہوا، اکھڑی ہوئی سانس نارمل اور طبعیت پر سکون ہونے لگی اور فوراً طائف واپسی کی تیاری کرنے لگا جہاں سے کل ہی شام کو آیا تھا اور ڈھائی بجے کی فلائٹ سے طائف کے لیے روانہ ہوگیا، ایئرپورٹ پر دوسرے احباب بھی ملے جو میری ہی طرح عادت کے مطابق کل شام کو ریاض آئے تھے، طائف اس حال میں پہنچا کہ دل رنج وغم سے چور تھا، پورے ملک کی ہواؤں اور فضاؤں پر غم کے آثار نمایاں تھے، درودیوار رورہے تھے، ہر شخص غم سے نڈھال، عصر حاضر کے قائد وامام کے فراق پر آنسو بہا رہا تھا اور ایک دوسرے کو تعزیت پیش کر رہا تھا، جب حضرت الشیخ رحمہ اللہ کے گھر پر پہنچا تو غمزدوں کی بھیڑ سے تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں تھی، علماء، مشائخ اور دعاۃ الی اللہ کا ایک تسلسل لا متناہی تھا جو وہاں آکر غم کے آنسو بہا کر اور ایک دوسرے کو تعزیت پیش کر کے خود اپنے دل مضطرب کو سکون پہنچانے کی کوشش کررہا تھا۔ جمعہ 28؍1؍1420ھ کی صبح مکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہو گیا جہاں مسجد حرام میں جمعہ کی نماز کے بعد حضرت الشیخ کے جنازے کی نماز پڑھی جانے والی تھی، وہاں میں نے دیکھا کہ پورا شہر اندرون ملک اور بیرون ملک سے آنے والوں سے کھچا کھچ بھراپڑا ہے، بعد میں لوگوں نے بتا یا کہ اس ناگہانی اژدحام کی وجہ سے ہوٹلوں سے کھانا اور پٹرول پمپوں سے پٹرول ختم ہو گیا تھا اور مسجد حرام میں تو ایسی بھیڑ تھی جیسے رمضان کی ستائیسویں رات کو ہوا کرتی ہے، اخبارات نے اپنا تخمینہ شائع کیا کہ میرے شیخ ومرشد کے جنازہ میں بیس لاکھ سے زائد کتاب وسنت کے پروانوں نے شرکت کی، اور ان آنکھوں نے دیکھا کہ ان کا جنازہ ان کے