کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 291
نے لکھنے پڑھنے کا کام کیا اور تھکن سے چور ہو کر بستر پر لیٹ گیا، تا کہ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد، پھر اپنے کام میں لگ جاؤں، ابھی نیند کی گود میں گیا ہی تھا کہ ٹیلیفون کی گھنٹی بجی، میں نے سمجھا کہ یہ جامعہ ابن تیمیہ، ہند کے ذمہ داران کا ٹیلی فون ہے جو عموماً مجھے جمعرات کو ہی ٹیلیفون کے ذریعہ جامعہ کے حالات بتایا کرتے ہیں، ریسیور اٹھایا تو آواز برادرم جناب جناب ڈاکٹر عبدالوہاب خلیل صاحب کی تھی جو مکہ مکرمہ مقیم ہیں، آواز پست، ابتدائے گفتگو غیر واضح، گویا وہ میرے ذہن کو تیار کرنا چاہتے تھے، کوئی غیر معمولی خبر سننے اور اس کا گہرا اثر برداشت کرنے کے لیے، اس کے بعد انہوں نے یہ جانکاہ خبر سنادی کہ میرے شیخ ومرشد، عصر حاضر میں اہل سنت وجماعت کے امام عبدالعزیز بن باز کا انتقال ہوگیا!!!
بے جان ہاتھوں سے ٹیلیفون گر گیا اور زبان سے بار بار انا للہ وانا الیہ راجعون اور رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ وغفرلہ وادخلہ فسیح جناتہ ادا ہونے لگے،اور پھر اچانک بستر پر بیٹھا اس طرح رونے لگا جس طرح کوئی چھوٹا بچہ اپنے ماں باپ سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو کر بلک بلک کر رونے لگتا ہے اور آنکھوں سے آنسو اس طرح جاری ہو گئے جیسے کوئی طوفان تھا جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا اور زبان پر مرحوم کے لیے دعائے طلب مغفرت کا ایک تسلسل تھا جو ختم ہونا نہیں چاہتا تھا، کافی دیر کے بعد اپنے آپ کو اس وقت سنبھالا دے سکا جب اللہ تعالیٰ کا یہ قول یاد آیا جو اس نے اپنے نبی اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے کہا ہے
﴿اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّہُمْ مَیِّتُوْن﴾
کہ آپ بھی مرجائیں گے اور تمام لوگ مرجائیں گے، نیز کہا ہے:
﴿وَمَا مُحَمَّدٌ اِلاَّ رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَاْئِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ﴾
’’محمد تو صرف اللہ کے رسول ہیں، ان سے پہلے بہت سے انبیاء ورسل گزر چکے ہیں، کیا اگر وہ مرجائیں گے یا قتل کر دیے جائیں گے تو تم لوگ اسلام سے