کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 290
میرے شیخ، میرے مرشد
امام عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ
(از :....مولانا محمد لقمان سلفی[1])
مؤرخہ 27 محرم الحرام 1420 ہجری بروز جمعرات بوقت صبح جب میرے شیخ رحمہ اللہ دنیا سے رخصت ہوئے، اس دن اور اس صبح کی آمد سے میں پہلے ہی ڈررہا تھا، جب بھی آپ سے ملاقات ہوتی اور دیکھتا کہ آپ کی صحت بتدریج گرتی جارہی ہے تو دل پر حزن والم کا سایہ پڑجاتا اور دل ودماغ پر ایک خوف طاری ہوجاتا، چنانچہ ویسا ہی ہوا کہ ان کی وفات نے میرے وجود کو ہلا دیا اور میرے دل ودماغ میں ایسی طغیانی لاد ی جو نہ جانے کب تھمے گی، اللہ تعالیٰ میرے شیخ کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس نصیب کرے اور ہمارے حال پر رحم کرے۔
اس دن بھی عادت کے مطابق فجر کی نماز کے بعد تقریباً ساڑھے سات بجے تک میں
[1] مولانا محمد لقمان سلفي کا تعارف:
یہ مولانا محمد لقمان سلفی کا مضمون ہے۔ان کا نام محمد لقمان، والد کا نام بارک اللہ اور دادا کا نام محمد یاسین ہے۔ ان کی ولادت 1923 ء میں بہار کے ضلع مشرقی چمپارن کی ایک معروف بستی چندنبارہ میں ہوئی۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم بستی کے مکتب میں حاصل کی۔ اس کے بعد اپنی بستی کے قریب ڈھاکہ کے ایک مدرسہ میں داخل ہوئے۔وہاں سے دربھنگہ میں جامعہ دار العلوم احمدیہ سلفیہ میں پڑھنے گئے۔ وہاں فراغت میں ایک سال باقی ہی تھا کہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کی طرف سے دنیا کے مختلف ممالک سے طلبہ کو پڑھنے کے لیے انتخاب کیا جانے لگا۔ احمدیہ سلفیہ سے مولانا حبیب المرسلین سلفی کا انتخاب عمل میں آیا۔ لیکن کسی وجہ سے انھوں نے آنے سے انکار کر دیا۔ یہ خوش نصیبی مولانا محمد لقمان سلفی کے حصے میں آئی جبکہ ان کو فارغ ہونے میں ایک سال باقی تھا۔ چنانچہ وہ مدینہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے چلے آئے۔
یہاں انھوں نے کافی محنت سے تعلیم حاصل کی اور علامہ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کے ساتھ دار الافتاء ر ریاض میں بحیثیت مترجم کام کرنے لگے۔علامہ ابن باز رحمہ اللہ سے انھوں نے خوب خوب استفادہ کیا اور ان کے تعاون سے ایک ادارے کی بنیاد رکھی جس کا نام جامعہ امام ابن تیمیہ ہے۔ ابھی وہ دار الافتاء کی نوکری سے ریٹائر ہو چکے ہیں۔