کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 29
سنا نہیں سکا۔ اے کاش! وقت کی حرکت ریموٹ کنٹرول سے رک جاتی کہ میں وقت کو روک دیتا اور قارئین کی خدمت میں نئی نئی چیزیں منظر عام پر لا سکتا اور زیادہ سے زیادہ مجھے کام کرنے کا وقت بھی مل جاتا۔ مگر میں یوشع بن نون جیسا اللہ کا برگزیدہ بندہ تو نہیں کہ میرے لیے بھی سورج کی حرکت رک جائے!!
9۔ کئی ایک ساتھیوں نے فرمائش کی تھی کہ میں اپنی ہر کتاب میں اپنا سوانحی خاکہ لکھ دیا کروں مگر میں نے اپنی کسی کتاب میں نہیں لکھا یا لکھنا مناسب نہیں سمجھا۔ مگر چونکہ میں نے اپنی اِس کتاب میں کئی لوگوں کے بارے میں لکھا ہے، اس لیے اگر میں اپنے ہی بارے میں نہ لکھوں تو اِس مرتبہ میرے چاہنے والوں کا غصہ بھڑک اٹھے گا کہ میں نے ان کی فرمائش کا لحاظ نہیں کیا؛ چنانچہ میں نے اپنا مختصر تعارف اس کتاب میں لکھ تو دیا ہے مگر اسے کتاب کے بالکل اخیر میں رکھا ہے کہ جس کی خواہش ہو پڑھ لے اور جو اس قسم کی چیزوں میں دلچسپی نہیں رکھتا اسے نہ دیکھے۔
اخیر میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھ ناچیز سے یہ عظیم کام لیا۔ میں امید کرتا ہوں کہ میرا یہ کام آپ قارئین سے ضرور دادِ تحسین حاصل کرے گا۔ البتہ اس کتاب کی تالیف اور ترتیب اخلاص کی بنیاد پر ہی عمل میں آئی ہے۔ نہ تو اس سے مادی امیدیں وابستہ ہیں اور نہ ہی کسی کے کہنے پر اسے ترتیب دے کر منظر عام پر لایا گیا ہے؛ بلکہ یہ علامہ ابن باز رحمہ اللہ سے خالص عقیدت اور محبت کا نتیجہ ہے۔ گرچہ میں ان کا شاگرد نہیں، لیکن محبت اور عقیدت کے لیے شاگرد کا ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔ یہ تو اپنے نصیب کی بات ہے کہ اتنی عظیم ہستی سے جس کو جتنا لگاؤ ہو جائے۔ اور اگر شکر ادا کیا جائے تو علامہ ابن باز رحمہ اللہ کا میرے اوپر یہ احسان بھی کیا کم ہے کہ میرا ویزہ بھی ان ہی کی سفارش اور توسط سے نکلا تھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے اس احسان کے سبب میں نے کئی برسوں کا سفر صرف چند مہینوں میں طے کر لیا۔ وذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہُ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ۔