کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 289
مندہوں، جس سے لڑکی پر بہت اچھااثر پڑا اور وہ اسی وقت تائب ہو گئی اور راہ ہدایت پر آگئی مگر جب یہ قصہ میں نے والد محترم کو سنایا تو آپ نے جھوٹ کے عدم جواز پر بہت ساری آیات اور احادیث تلاوت فرمائیں اور وعظ ونصیحت میں بھی جھوٹ سے اجتناب کرنے کے لیے کہا۔
شیخ نے مصروفیت کی بنا پر کبھی کسی ملک کاسفر نہیں کیا، اس کے باجود ساری دنیا کے مسلمانوں کے حالات سے بخوبی واقف اور ان سے منسلک رہتے، شیخ آنکھوں کی روشنی سے محروم ضرور تھے مگر آپ کا علم ذہانت حافظہ اور دانائی ہزار دیکھنے والوں سے زیادہ افضل تھی، کلیۃ اللغۃ العربیۃ ریاضکے استاد جناب محمد بن علی الصامل لکھتے ہیں کہ ماہ رمضان 1416ھ میں شیخ امیر بندر بن سلمان آل سعود کی دعوت پر ان کے قصر میں تشریف لے گئے، جہاں پر افریقہ سے آیا ہوا ایک دعوتی گروپ موجود تھا، جب امیر بندر اس وفد کا تعارف کرانے لگے تو شیخ نے ان کا نام سن کر پہچان لیا کہ 25سال قبل ان میں سے بعض کو شیخ نے جامعہ اسلامیہ میں پڑھا یا تھا، آپ نے سب کے نام ذکر کر کے خیریت معلوم کی اور افریقہ میں باقی دعاۃ کے حالات بھی دریافت کیے، ماہ رمضان 1418ھ یعنی دو سال بعد پھر یہی وفد امیر بندر کے ہمراہ شیخ سے ملا مگر ان کے درمیان ایک اور شخص باطل عقیدہ کا حامل تھا، آپ نے تمام دعاۃ کے نام پکار کر خیریت معلوم کی اور جب دوران گفتگو اس نئے شخص کا نام بار بار آیا تو شیخ نے امیر بندر کو آگاہ کیا کہ وفد کے درمیان فلاں شخص کا عقیدہ صحیح نہیں ہے اور اس کے بعد امیر کی تحقیق پر یہ بات ثابت ہوگئی۔
اللہ تعالیٰ شیخ کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین
٭٭٭