کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 288
سے ملاقات کی اور شیخ کے گھر یلو معاملات سے متعلق سوال جواب کیے جن کا اختصار یہ ہے، شیخ کی وفات کے وقت گھر میں دوبیویاں تھیں، پہلی بیوی ام عبداللہ جو 55 سال آپ کے عقد نکاح میں رہیں جن سے دو بیٹے اور تین بیٹیاں یعنی کل پانچ بچے ہیں، دوسری بیوی ام احمد جو 30 سال آپ کی زوجیت میں رہیں ان سے بھی دو بیٹے اور تین، بیٹیاں ہیں، بفضل اللہ اور شیخ کی اچھی تربیت سے ساری اولاد علوم شرعی کے عالم باعمل ہیں، بالخصوص شیخ احمد اور شیخ عبداللہ اپنے والد محترم کی طرح دعوتی میدان میں بہت سرگرم ہیں، شیخ کی ایک بیٹی ہند امام محمد بن سعودیونیورسٹی میں علوم شرعیہ کی استاذ ہیں اور شیخ کی ایک پوتی انگریزی زبان کی استاذ ہیں۔ شیخ ہمیشہ دعوتی علمی اصلاحی اعمال میں مشغول رہنے کے باوجود اپنے یومیہ اوقات کو منظم رکھتے تھے اور گھر یلو تمام ذمہ داریوں کو بحسن وخوبی انجام دیتے، شیخ نے مثالی خاوند کامیاب والد کا رول ادا کرنے میں کوئی کمی نہیں رہنے دی، گاہے گاہے گھر کے تمام افراد کی میٹنگ بلانے کا اہتمام کرتے اور دینی اجتماعی دنیوی تمام امور پر اچھی طرح روشنی ڈالتے، بیٹے اور بیٹیوں میں یک سامعاملہ فرماتے، دونوں بیویوں اور بچوں میں مساوات اور برابری فرماتے۔
خادموں کے ساتھ معاملہ:
ام احمد کہتی ہیں کہ شیخ نے کبھی کسی خادم کو نہیں جھڑکا اور نہ کسی کو پیٹھ پیچھے برابھلا کہا اور نہ کبھی کسی غلطی پر غصہ ہوئے، غلطی پر ہمیشہ صبر وتحمل سے کام لیتے، محبت سے سمجھاتے اور اس کے حق میں دعا کرتے (اللہ یہدیہ) لیکن دینی امور میں کوتاہی کبھی برداشت نہ کرتے، گھر کے تمام افراد کو خادم موں کو فجر کے لیے اٹھاتے، بچیوں کو حجاب کا حکم دیتے اور لباس میں سادگی اپنا نے غیر اسلامی لباس سے اجتناب کی نصیحت کرتے، شیخ کی دختر نیک اختر ہند کا بیان ہے کہ جب سیکنڈری اسکول میں زیر تعلیم تھی تو مجھے کلاس ٹیچر نے ایک ایسی لڑکی کو نصیحت کرنے کے لیے کہا جو نہایت بدسلوک اور گمراہ تھی، میں نے اپنی نصیت کو موثر بنانے کے لیے ایک جھوٹے خواب کا حیلہ تلاش کیا اور کہا کہ میں نے آج رات تم کو خواب میں دیکھا کہ تم بعض غلطیوں کی بناپر بہت مشکلوں سے دو چار ہو اور میں تبھی سے تمہارے بارے میں فکر