کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 287
فتاویٰ اور شیخ ابن باز رحمہ اللہ : حقیقت میں فتویٰ تبلیغ دین اور پیغام رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت اور اس کو بیان کرنے کا نام ہے، اس لیے مفتی کا بہت اعلیٰ منصب اور اہم مقام ہوتا ہے، اس منصب کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی ذات پاک کی طرف بھی منسوب کیا ہے، فرمان الٰہی ہے، (ترجمہ) اور آپ سے لوگ عورتوں کے بارے میں فتویٰ معلوم کرتے ہیں، ان سے کہہ دیجئے کہ عورتوں کے بارے میں تم کو اللہ فتویٰ دے گا۔ چنانچہ شیخ سلف صالحین کی طرح فتویٰ صادر کرتے وقت جلد بازی نہ فرماتے۔ ابن ابی لیلیؒ فرماتے ہیں، میں نے ایک سوبیس صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی ہے، عموماً فتویٰ پوچھے جانے پر ہر صحابی کی یہ خواہش ہوا کرتی کہ فتویٰ دوسرا ساتھی دے تا کہ وہ اس ذمہ داری کو کما حقہ پورا نہ کرنے کی باز پرس سے بچ جائے۔ شیخ ابن باز اگر سوال کا جواب نہیں جانتے تو مجھے نہیں معلوم یا اللہ اعلم، کہنا کوئی قابل عار نہیں تصور کرتے، بلکہ دقیق علمی منہج یہی ہے، لہٰذا شیخ کو متعدد بار مجالس میں کہتے سنا گیا، اللہ اعلم، شیخ ہمیشہ طلاب کو اور مشائخ کو فرماتے کہ جس نے کہا مجھے نہیں معلوم تو اس نے سوال کا آدھا جواب صحیح دے دیا، کیونکہ جواب نہ جاننے کا اعتراف بھی آدھا جواب ہے، اور فتاویٰ دیتے وقت عدم استعجال کی بھی نصیحت فرماتے۔ شیخ ابن باز عموماً فتویٰ صادر کرتے وقت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ کے اصولوں کو اپنا تے اور امام احمد بن حنبلؒ کا مذہب اگر قرآن وحدیث کے مخالف نہ ہوتا تو اختیار کرتے، اگر کسی کی کوئی بات بھی کتاب وسنت کے مخالف ہوتی تو اس کو ترک کردیتے، اس لیے شیخ کے فتاویٰ کو امت اسلام میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ شیخ کا گھر اور اہل وعیال: شیخ زندگی کے ہر میدان میں علم وعمل غور وفکر، تدبیر خانہ اور تمام اصلاحی امور میں متوازن راہ پر گامزن رہے، شیخ کے انتقال کے بعد ایک خاتون نے شیخ کی اہلیہ اور بیٹیوں