کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 286
1346ھ میں اچانک شیخ کی آنکھوں کو کوئی مرض لاحق ہوا اور 1350ھ میں اس مرض کے سبب آپ کی دونوں آنکھوں سے روشنی ختم ہوگئی۔
سن 1352ھ میں جب سعودی حکومت کے بانی شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمان آل سعود نے جزیرہ عرب کو متحد کرکے ایک مضبوط اور بااختیار حکومت کے قیام کا اعلان کیا، اس وقت شیخ ابن باز سن رشد کو پہنچ چکے تھے،آپ کی شخصیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی عنایت کردہ من جملہ صلاحیتوں اور اوصاف وفضائل میں سے چندیہ ہیں، بے مثال حافظہ،حسن خلق، مہمان نوازی، تبلیغ دین اور امربالمعروف ونہی عن المنکر پر آنے والی دشواریوں پر صبروتحمل عالم اسلام سے گہرا تعلق ہر مسلمان کے رنج وغم میں شریک ان کے مسائل ومشاکل کے حل میں کوشاں وفکر مند، باتیں کم اور کام زیادہ، انہی اوصاف حمیدہ کی بنا پر شیخ کو اس صدی میں امت مسلمہ کا امام اور مفتی اعظم تسلیم کیا گیا ہے۔
نیز شیخ کے علمی منہج اور طور طریقہ کی اہم خصوصیات کا اندازہ ان امور سے کیا جاسکتا ہے کہ ہر سوال کا جواب صرف قرآن وسنت کی دلیل سے اخذ کرتے، کسی مذہب یا امام کے قول کو بغیر دلیل قبول نہیں کرتے، سارے جہاں کے حالات پر عمیق نظر رکھتے اور امت مسلمہ کے ساتھ سچا گہرا تعلق اور سب کے ساتھ اچھا سلوک روا رکھتے۔ جب بھی فتویٰ دیتے تو دعوتی انداز غالب رہتا، فتویٰ کی عبارت آسان اور نہایت نصیحت آموز ہوتی۔ شیخ کے امت مسلمہ کے مسائل میں برابر کے شریک ہونے کا احساس اس وقت زیادہ ہو جاتا جب شیخ ملاقاتی سے تعارف کے بعد اپنے غیر معمولی حافظہ کے ذریعے ضیوف (مہمانوں )اور زائرین کو ان کے ساتھ خطاب فرماتے، شیخ فتویٰ پوچھنے والوں کے مقاصد کو بھی بھانپ لیا کرتے اور مکمل احتیاط کے ساتھ فتویٰ صادر فرماتے، تاکہ کسی کے غلط فہمی کا شکار ہونے کا اندیشہ باقی نہ رہے۔ مخالفین ومعاندین کے ہمراہ بھی رفق اور لطافت اور وسعت نظری سے معاملہ کرتے۔ ہمیشہ سرگرعمل، سننے اور سنانے میں مشغول رہتے، ایک ایک پل درس وتدریس اور دعوت وتبلیغ زہد و عبادت اور تقویٰ، مہمانوازی اور اہل وعیال کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں گزار تے۔