کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 282
جھگڑا شروع، بعض گھروں میں بیوی کا ساس، سسر یا دیور وغیرہ سے جھگڑا رہتا ہے، کبھی عورتیں مستقل گھر کا تقاضا شروع کر دیتی ہیں تو آخرکار اس کا انجام طلاق کی صورت میں نکلتا ہے، مردوں کی طرف کبھی نشے، شراب یا ترک نماز کی شکایت نزاع پیدا ہونے کا سبب بن جاتی ہے اور جب عورت، مرد پر کڑی نظر رکھتی ہے تو آدمی طلاق دے کر اس عورت سے جان چھڑانے میں ہی عافیت سمجھتا ہے، زیادہ تر طلاق کے یہی اسباب ہوتے ہیں۔ شیخ ابن باز کی رائے یہ ہے کہ سعودی عرب میں فروغ تعلیم اور شعور پھیلنے کے باوجود طلاق کے مسائل کم نہیں ہورہے، اس لیے کہ آپ کے خیال میں طلاق کے اسباب میاں بیوی کے مابین داخلی ہیں، جوں جوں زندگی کی مشکلات اور معاش کے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے، توں توں ان مسائل میں بھی زیادتی ہوتی جارہی ہے۔ پھر آپ اس کا کیا علاج تجویز کرتے ہیں ؟ کیا اس کی روک تھام کے لیے حکومتی اقدامات کی ضروت محسوس کرتے ہیں۔ شیخ ابن باز: نہیں، قواعد وضوابط بندی اس کا کوئی حل نہیں، یہ مسئلہ لوگوں میں ایک دوسرے کا احترام، رشتوں کے شعور اور جلدی میں کوئی فیصلہ کن قدم نہ اٹھانے اور غصہ آنے پر شیطان سے پناہ مانگنے وغیرہ کی تربیت دینے سے ہی حل ہو گا، اسی طرح ریڈیو، ٹیلی ویژن اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے میاں بیوی کو بار بار نصیحتوں، صبر کی مشق، رواداری اور ایک دوسرے کا دھیان رکھنے کی تلقین کی جائے، بالخصوص بیویوں کو خاوندوں سے ایسے مطالبات کرنے سے احترازکرنا چاہیے جو ان کے لیے مشکل ہوں، یا ان میں غم وغصہ کو ابھارنے کا موجب بنیں، تلخ کلمات سے گریز اور گھر میں موجود دوسرے رشتہ داروں کے حقوق کا پورا دھیان رکھنا بھی ضروری ہے۔ غرض کہ یہ مسئلہ شوہر کی طرف سے جلدی نہ دکھانے، بیوی سے نرمی کرنے اور تحمل سے کام لینے، اس طرح بیویوں کی طرف سے بھی تحمل کامظاہرہ، لمبے چوڑے مطالبے نہ کرنے اور خاوندوں کے حق میں خلوص ونرمی سے کام لینے کے ذریعے کافی حل ہو سکتا ہے۔