کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 280
سعودی عرب کے بانی ہیں ) سے کبھی آپ کو اختلاف کا واسطہ پڑا۔ شیخ کہنے لگے، ملک عبدالعزیز بہت دانا انسان تھے اور آپ کے قریب ترین حضرات میں علماء کی ایک بڑی تعداد تھی، آپ شریعت اسلامی کے بارے میں جاننے اور اس کو نافذ کر نے کے بڑے مشتاق رہتے تھے، میرے اور آپ کے درمیان ان مسائل میں کبھی اختلاف نہ ہوا۔ ملک عبدالعزیز کے دور حکومت میں علماء کی یہ عادت تھی کہ ہفتہ میں ایک دن شاہ سے ملاقات کیا کرتے تھے، اس مجلس علماء میں کن موضوعات پر بات ہوتی تھی؟ شیخ ابن باز : کوئی خاص نہیں، رشد ونصیحت کی بعض باتیں، اہم حالات حاضرہ پر تبادلہ خیال اور مشاورت یاوقتی مصالح پر مبنی ایک دوسرے کو یاد دہانیاں وغیرہ ہی عموماً مجالس کا موضوع ہوتی تھیں۔ شیخ ابن باز نے جیسا کہ پہلے اعتراف کیا تھا کہ وہ اپنے اہل خانہ اور اولاد کے حق میں اپنی کثیر مشغولیات کے سبب کوتاہی کر جاتے ہیں لیکن آپ کہنے لگے کہ کافی سالوں سے وہ عصر کے بعد کا وقت اپنے اہل خانہ کے ساتھ گزارتے ہیں، مغرب سے کچھ پہلے تک یا پھر رات دس بجے کے بعد آرام کرنا آپ کا معمول ہے، جہاں تک آپ کے روز مرہ معمولات کا تذکرہ ہے تو آپ ہفتہ، منگل اور جمعہ کے روز نماز فجر کے بعد اپنے کاموں وغیرہ کو شروع کر دیتے ہیں اور سورج طلوع ہونے تک ان ضروری امور میں مشغول رہتے ہیں، پھر دفتر تشریف لے جاتے ہیں، بعض دنوں میں گھڑی، نصف گھڑی آرام کرنے کے لیے گھر لوٹتے ہیں لیکن عموماً ایسا نہیں ہوتا، جبکہ اتوار پیر بدھ اور جمعرات کو ریاض کی جامع کبیر میں آپ درس دیتے ہیں اور صبح 5 سے7 بجے تک مسجد میں ہی تشریف رکھتے ہیں۔ ہمارے فاضل مہمان کو مملکت سعودی عرب کے 4 بادشاہوں کی رفاقت کا موقع ملا ہے، جلالۃ الملک عبدالعزیز بن سعود، ملک سعود، شاہ فیصل اور ملک خالد رحمہم اللہ ہم نے ان سالوں پر بات کرنے کی شیخ کو دعوت دی۔ شیخ ابن باز : ملک عبدالعزیز، علماء کے ساتھی علمی مذاکرہ کے بڑے مشتاق رہتے تھے،