کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 279
ہو چکی تھی، لیکن اس سے میری راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہوئی، میرے رب نے میری ہر موقع پر خوب خوب مدد کی۔
بچپن سے جوانی تک کی عمر کے تذکرے نے ’’الجزیرہ‘‘ کے مہمان کے لہجے میں مسرت کو بکھیر دیا تھا میں نے پوچھا، کیا آپ کو اس دور کا اپنا کوئی دوست، یعنی طالب علمی کا کوئی ساتھی یاد ہے؟
آپ نے اس جواب پر اکتفا کیا کہ ہم مختلف لڑکے اکٹھے ہوکر پڑھا کرتے تھے، ایک دوسرے سے مل بیٹھ کر مطالعہ کرتے، میرے سب سے قریبی دوست شیخ عبداللہ بن بکر تھے، وہ ہمیشہ مرے ساتھ رہتے اور ہم اکٹھے کتابیں پڑھتے۔
مفتی دیار سعودیہ شیخ محمد بن ابراہیم سے میرا کوئی اختلاف نہیں :
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شیخ ابن باز اور شیخ محمد بن ابراہیم سابق مفتی دیار سعودیہ کے مابین مختلف امور پر اختلافات تھے، حتیٰ کہ یہاں تک بھی لوگ کہتے سنائی دیے کہ شیخ محمد بن ابراہیم ان فقہی اختلافات کی بدولت آپ سے بڑے کبیدہ خاطر رہتے تھے، آپ اس پر کیا تبصرہ فرماتے ہیں ؟
شیخ ابن باز: جہاں تک میری طرف سے اختلافات کی بات ہے تو چند ایک علمی مسائل میں میرے رائے آپ سے جدا تھی، جس پر آپ حرج محسوس کرتے تھے، اسی معمولی تنگی کو بعض لوگوں نے دائمی اختلاف کار نگ دے دیا ہے، مثال کے طور پر ایک بار تطلیق ثلاثہ پر فتویٰ لینے کا مسئلہ پیش آیا جس پر میں نے فتویٰ دیا اور شیخ محمد بن ابراہیم نے بھی، جنہیں میرے فتویٰ کا علم نہ تھا، اس لا علمی کی بناء پر ہونے والی علمی مخالفت سے تھوڑا سا ماحول مکدر ہوگیا، چنانچہ میں نے آپ سے اس بارے میں معذرت کر لی اور اس طرح یہ تکدرجاتا رہا۔
ملک عبدالعزیز کی مجالس میں :
ابھی ہم علمی نقطہ کے حوالے سے پیدا ہونے والے انہی اختلافات کا ہی تذکرہ کررہے تھے کہ مجھے تجسس پیدا ہوا اور میں نے شیخ ابن باز سے پوچھا، کیا ملک عبدالعزیز (جو مملکت