کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 278
شیخ کہتے ہیں : میں نہیں سمجھتا اگر میں کسی دوسرے میدان میں قسمت آزمائی کرتا تو اس میں کامیابی سے ہمکنار نہ ہوتا کیونکہ مجھے اس پر یقین ہے کہ انسان جب اپنے رب اور اپنی ذات سے مخلص ہوتو کامیابی آخر کار اس کے قدم چومتی ہے، میں آپ کو اپنے پیشہ خرید وفروخت کے دور کا ایک واقعہ بتاتا ہوں، جس سے اس پیشہ سے میرا خلوص اور سچائی مترشح ہوتی ہے، میں اپنے بھائی محمد کے ساتھ کپڑے اور سلے ہوئے ملبوسات بیچا کرتا تھا اور اس کے لیے ہم ریاض کے بازار حراج میں بھی پیدل گھوما کرتے تھے کہ کسی طرح ہمارا سودا بک جائے، جب آپ یہ پوچھتے ہیں کہ کیا میں اس میدان میں کامیاب رہتا تو میرا جواب ہے کہ میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ اگر میں اپنی سی تمام کوشش اس پیشہ کے لیے کر گزرتا تو کامیابی تو محنت کرنے والے ہی کے ہاتھ میں ہے۔ جہاں تک میرے بچپن اور عہد طفولیت کا ذکر ہے جس پر انسان ساری زندگی فخر کرتا ہے، مجھے افسوس کہ اس کے بارے میں کوئی بات مجھے اچھی طرح یاد نہیں، سو ائے اس کے کہ میں اس عمر میں قرآن کریم کی تلاوت اہل علم کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور علوم دین کے بارے میں بہت کچھ جاننے کا متلاشی رہتا تھا۔ بصارت زائل ہونے پر پیش آنے والی مشکلات: جب شیخ ابن باز دوسروں کا سامنا کرنے اور پہچاننے کی بات کر رہے تھے تو میں سوچ رہا تھا کہ ایسا کیسے ممکن ہے کیونکہ آپ تو نابینا ہیں، نظر کی اس بندش نے آپ کی راہ میں کون سے رکاوٹیں حائل کیں ؟ شیخ ایسے شخص کے لہجے میں جواب دیتے ہیں جسے اپنی ذات پر بے پناہ اعتماد ہے، فقط اس بنا پر کہ میں دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوں میں نے کبھی اپنے آپ کو بندھا محسوس نہیں کیا، نظر کا اٹھالیا جانا میرے رب کی قدرت ہے جس سے فرار کی کوئی راہ نہیں، اگر چہ میں نے اس وقت جب کہ میری عمر 16 سے 19برس کے درمیان تھی، نظر کے علاج کی بہت کوشش کی اور آپریشن وغیرہ بھی کروائے، لیکن میں کامیاب نہ ہوسکا 1345ھ میں میری نظر کمزور ہونا شروع ہوئی اور 4 سال بعد49ھ تک میری بصارت مکمل طور پر زائل