کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 277
ہوا ہوں، مجھے اپنی کثیر مصروفیات کی بنا پر اولاد کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع کم ملتا ہے، مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ میں حقیقتاً اپنے اہل وعیال کے حق میں کوتاہی کا مرتکب ہوں، لیکن ان کی راہنمائی اور انہیں نیک کاموں کی طرف متوجہ رکھنے کے لیے میں اپنی سی کوشش بروئے کار لاتا رہتا ہوں۔
اس میں شبہ نہیں کہ شیخ ابن باز علم ودین کے آدمی ہیں لیکن ذہنی طور پر آپ زراعت اوربعض پیشوں سے منسلک رہتے ہیں، آپ جس طرح زراعت کے پیشے کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اس طرح خرید و فروخت یعنی تجارت جن کا اوائل عمری میں آپ نے تجربہ بھی کیا ہے میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں، اس نقطہ نظر سے ہم نے اولاد کے پیشوں کے بارے میں آپ کی رائے پوچھی۔۔۔
شیخ ابن باز: اس میں کوئی شک نہیں کہ خرید و فروخت کے ذریعے رزق کی تلاش کو میں اپنی اولاد کے لیے ترجیح دیتا ہوں، اسی طرح زراعت بھی مجھے بھلی معلوم ہوتی ہے، لیکن میرے بڑے بیٹے امور تجارت میں مشغول رہتے ہیں۔
شیخ ابن باز اور فلسفہ کامیابی:
انسان کا بچپن خوشیوں اور غموں سے بھرا ہوتا ہے، جب انسان اپنے بچپن کو یاد کر تا ہے تو گویا ہر طرف سے اپنے آپ کو بندھا محسوس کرتا ہے، بچپن ہر کار حیات کی ابتداء کا زمانہ ہوتا ہے۔
شیخ عبدالعزیز بن باز، جو اس وقت اپنے دائرۂ عمل کے اعتبار سے ایک دینی اور علمی مرکز تصور کیے جاتے ہیں، کیا آپ یہ توقع رکھتے تھے کہ کسی اور میدان میں قسمت آزمائی کرتے اور یوں کامیاب رہتے، شیخ جب اپنے بچپن کی یادوں کے دریچے کھول رہے تھے تو گویا مسرت آپ کے چہرے سے چھلک رہی تھی، آپ کا اسلوب بیان اس دور کی عکاسی کرتا تھا گویا آپ عمر کے اسی دور میں ہم سے باتیں کررہے ہیں، ہم نے آپ سے پوچھا کہ اپنے بچپن کے بارے میں ہمیں کچھ بتائیے؟