کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 27
بھی نیک نامی ہوتی!!‘‘ دراصل یہ استاذ مکرم کی انتہائی تواضع اور مجھ ادنیٰ طالبعلم کے لیے ایک قسم کی تشجیع تھی۔ بہرحال میں اس کے لیے اپنے استاذ مکرم کی خدمت میں دل کے نہاں خانے سے شکریے کا جگر پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں آپ کے حسن ظن کو پورا کرے۔ آمین 4۔ علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے حوالے سے جن لوگوں کے مضامین ومقالات میں نے جمع کیا ہے، ان میں سے اکثر حضرات بین الاقوامی شہرت کے حامل ہیں اور ان میں سے اکثر نے بلاواسطہ علامہ ابن باز رحمہ اللہ سے استفادہ کیا ہے، اس لیے میرے جمع کردہ مضامین کو پڑھ کر علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے بارے میں قارئین کا اعتماد مزید بڑھے گا ان شاء اللہ۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ علامہ ابن باز رحمہ اللہ کسی کے تزکیہ وتوصیہ کے ہرگز ہرگز محتاج نہیں ہیں۔ میں نے کوشش کی ہے کہ مقالہ نگار حضرات کے بارے میں بھی مختصر معلومات لکھ دی جائے۔ اس کے لیے جہاں تک ممکن ہو سکا میں نے فون پر رابطہ کیا اور ان کے مضمون کے ساتھ ان کا بھی مختصر تعارف حاشیہ میں اضافہ کر دیا۔ مجھے امید ہے کہ یہ اضافہ بھی ہمارے قارئین کے لیے ایک مفید معلومات کی حیثیت اختیار کر لے گا۔ لیکن یہ انھیں مقالہ نگاران کے بارے میں لکھنے کی سعادت حاصل ہو سکی جن سے میرا رابطہ ہو سکا۔ جن سے میرا فون پر یا بالمشافہ رابطہ نہیں ہو سکا، ان کے بارے میں میں لکھنے سے قاصر رہا۔ کتاب شائع ہونے کے بعد اگر ان کے ہاتھ میں میری یہ کتاب پہنچے تو اللہ کے واسطے مجھے اس سلسلے میں معذور سمجھیں۔ 5۔ اس کتاب میں میں نے اپنا بھی ایک مضمون بعنوان ’’یہ تھے علامہ ابن باز رحمہ اللہ ‘‘ شامل کر دیاجو کہ انتہائی جلدبازی میں لکھا۔ کتاب میں دوسرے مقالہ نگاران کے مضامین ہی کافی تھے اور وہ سارے کے سارے مقالہ نگاران مجھ سے سینئر بھی ہیں اورمجھ سے بہت زیادہ قابل بھی، لیکن میں نے بھی ایک عظیم شخصیت کے بارے میں لکھ کر انھیں اپنی