کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 26
باز رحمہ اللہ کی وفات پر خصوصی مجلہ تو نکالا۔ اسی طرح میں ان تمام اردو مجلات کے ایڈیٹروں کوبھی آج بہت دنوں بعد ہی سہی، مبارکباد پیش کرتا ہوں جنھوں نے اپنے جرائد میں علامہ موصوف کے بارے میں مضامین شائع کیے۔ اِس موقعے پر میں جناب شیخ عبد الہادی عمری مدنی حفظہ اللہ کا بے حد شکرگزار ہوں کہ جب میں نے برطانیہ ان کی خدمت میں فون کر کے علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے متعلق ان کا مضمون اپنی کتاب میں شامل کرنے کی اجازت طلب کی تو انھوں نے پرمسرت بات کہی اور کہنے لگے:
’’میرا مضمون ہی کیا، پورا صراط مستقیم ہی آپ کا ہے۔ آپ بخوشی میرا مضمون اپنی کتاب میں شامل کریں، یہ تو آپ نے بہت اچھا کام انجام دیا ہے۔ مجھے آپ کے بارے میں جان کر بہت خوشی ہوئی اور ہماری نیک تمنائیں آپ کے ساتھ ہیں، اللہ آپ کے علم وعمل میں برکت عطا فرمائے۔‘‘
ادھر جب میں نے اپنے استاذ مکرم جناب مولانا حفیظ الرحمن صاحب عمری مدنی حفظہ اللہ سے فون پر بات کر کے ان کا مضمون شامل کرنے کی اجازت چاہی تو انھوں نے پیار ومحبت کے وہ پُراثر الفاظ کہے کہ دل باغ باغ ہو گیا اور دل چاہا کہ اٹھ کر ان کا ماتھا چوم لوں مگر افسوس کہ ہمارے اور ان کے درمیان کئی ایک سرحدیں حد فاصل تھیں۔ انھوں نے کہا:
’’عزیزم! میرا مضمون آپ اپنی کتاب میں شامل کرنے کی مجھ سے اجازت طلب کر رہے ہیں ؛ جبکہ مجھے آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ آپ میرے مضمون کو اپنی کتاب میں شامل کر کے مجھے یہ سعادت بخش رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ عمرآباد جامعہ دار السلام میں آپ کے زمانۂ طالب علمی ہی میں مجھے آپ کے بارے میں اندازہ ہو چکا تھا کہ آپ آسمان کی بلندیوں کو چھوئیں گے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ کچھ دن اور عمرآباد میں پڑھ لیتے تاکہ آپ کی ترقی سے ہماری