کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 259
دورمیں نادر المثال ہے۔‘‘ انھیں کابیان ہے : بہت سے زعماء اورقادہ شیخ سے ملاقات کے لیے آتے۔ شیخ اپنی سادگی کے ساتھ اپنی مجلس میں موجود اپنے کام میں منہمک ہوتے۔ یہ لوگ سلام کرکے بیٹھ جاتے اورانتظار کرتے کب شیخ آئیں گے۔ پوچھتے شیخ کب نکلیں گے ہم ان کے سامنے اپنے مسائل رکھنا چاہتے ہیں۔ جب بتایا جاتا یہی توہیں جنھیں آپ نے سلام کیا ہے اورجن کو دنیا کے ہرکونے سے آئے ہوئے لوگ گھیرے بیٹھے ہیں۔ یہ سن کربسااوقات بہت سے لوگ روپڑتے۔ انھیں یقین نہ آتا کہ یہ وہی شیخ ابن باز ہیں جن کا شہرہ ہرطرف ہے۔ پھرکہہ پڑتے ہم تواپنے ملکوں میں اتنی آسانی سے اپنے علماء سے نہیں مل سکتے۔ ان کے عجب ٹھاٹ باٹ ہیں پہلے سے وقت لیے بغیر ان سے ملنا مشکل ہے۔ اوریہاں یہ عالم ہے کہ امام دعوت اورامام عصر کا درتواضع کھلاہے اورہرشخص ان سے مل سکتاہے بات کرسکتا ہے اوراپنی ضروریات کہہ سکتاہے۔ یہ سب توکتابوں میں علماء سلف کے متعلق پڑھاہے آج فریدعصر اوروحید زماں کی ذات میں اسلاف کی خوبیاں ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں۔ ٭ شیخ یوسف قرضاوی نے لکھا: ’’لا أعرف أحدا یکرہ الشیخ ابن باز من أبناء الاسلام إلا أن یکون مطعونا فی عقیدتہ أو ملبوسا علیہ‘‘۔ ’’میں نہیں جانتا مسلمانوں میں سے کوئی شیخ ابن باز کوناپسند کرتا ہو وہی انھیں ناپسند کرسکتا ہے جوبدعقیدہ ہو یا جاہل ہو۔‘‘ ٭ کویت کے مشہو رداعی احمد قطان نے شیخ کی رحلت پربڑے دکھ کا اظہار کیا اورجمعہ کے خطبے میں ان کے مآثر مواقف اور فضائل کا ذکرکیا۔ شیخ قطان نے شیخ سے بارہا ملاقات کی۔ ان کے بقول انھیں دیکھ کر سلف صالحین اورصحابہ کی یاد آتی تھی۔ اور شیخ کے فتاویٰ سارے عالم میں پڑھے گئے اورانھیں قبولیت عامہ