کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 24
ابھی آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اس کتاب کی ترتیب اور اسے منظر عام پر لانے والے عوامل و محرکات اور اسباب کے حوالے سے چند باتیں درج ذیل ہیں :
1۔ آج سے کوئی تین ماہ قبل میرے پاس ایک صاحب کا فون آیا جو ایک معروف پبلشر ہیں اور ان کی شائع کردہ کتابیں اردو داں طبقے میں دادِ تحسین حاصل کر چکی ہیں۔ یہ ابوساریہ عبد الجلیل صاحب ہیں جن کا تعلق پاکستان سے ہے۔ انھوں نے بتلایا کہ میں کافی دنوں سے آپ کی چند کتابیں جیسے ’’غیرت کا فقدان اور اس کا علاج‘‘، اور ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاطرزِ عمل، کس کے ساتھ کیسا؟‘‘ پڑھنے کے بعد آپ سے ملنے کا خواہش مند ہوں اور میں انہیں شائع کرنا چاہتا ہوں۔آپ اس کے جو حقوق بنتے ہیں لے لیں اور مجھے پاکستان اور سعودی عرب سے شائع کرنے کی اجازت دے دیں۔ کیونکہ آپ کی یہ کتابیں وقت کی اہم ضرورت اور نئی نسل کے لیے انتہائی مفید ہیں۔
چنانچہ میری اُن سے مدینہ منورہ میں ایک میٹنگ ہوئی اور میں نے اپنے حقوق سے تنازل کرتے ہوئے انھیں اپنی یہ کتابیں شائع کرنے کی اجازت تحریری طور پر دے دی۔ لیکن میں نے یہ شرط رکھی کہ میری یہ کتابیں انگلش زبان میں بھی آنی چاہئیں جسے انھوں نے قبول کر لی اور الحمد للہ میری ان کتابوں کا انگلش ترجمہ بھی وہی کروا رہے ہیں۔ اسی درمیان میری ترجمہ کردہ کتاب ’’اشفعوا تؤجروا‘‘ (سفارش کرو، اجروثواب پاؤ) کے حوالے سے بات نکل پڑی جس کے مؤلف شہزادہ نایف بن ممدوح بن عبد العزیز حفظہ اللہ ہیں۔ اس کتاب کو بھی انھوں نے شائع کرنے کا وعدہ کیا اور آناً فاناً وہ کتاب ایک ماہ کے اندر اندر شائع ہو کر منظر عام پر آ گئی۔ جب ابوساریہ صاحب یہ کتاب مجھے دینے کے لیے جدہ سے ریاض تشریف لائے تو انھیں یہ بھی معلوم ہوا کہ میں نے علامہ ابن باز رحمہ اللہ پر کئی سال سے کام کر کے مسودہ رکھا ہوا ہے۔ انھوں نے اس کتاب کو بھی شائع کرنے کا ارادہ کیا اور علامہ ابن باز رحمہ اللہ سے اپنی بے حد عقیدت کا اظہار کیا؛ چنانچہ میں باوجودیکہ دیگر علمی کاموں میں مصروف تھا اور وقت نکالنا