کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 23
بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ جب اس خاتون کو معلوم ہوا کہ میں نے علامہ صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ کی سوانح حیات پر مشتمل اردو زبان میں کتاب لکھی ہے تو اس نے نجانے کہاں سے میرا نمبر حاصل کیا اور مجھے کال کر کے علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ کے بارے میں سوالات کرتی رہی اور اسے مطلوبہ جواب ملتا رہا۔ بھلا میں علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ پر تبصرہ کرنے والے کم ظرفوں کو کیسے سمجھاؤں جنھیں نہیں معلوم کہ مرنے والا مر گیا مگر اس کی گوناگوں کاوشوں کو سراہنے والوں کی تعداد لا تعداد ہے اور سرزمین فلسطین میں میزائلوں کی گڑگڑاہٹ اور توپوں کی گولہ باری میں ام عبد الرحمن نامی خاتون اس شخصیت کے بارے میں پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ کر یونیورسٹی سے ڈگری لینا چاہتی ہے!! بھلا میں وہ دن کیسے بھول سکتا ہوں کہ ایک دفعہ میرے پاس مذکورہ خاتون کا فون آیا تھا اور وہ کہہ رہی تھی کہ آج میں علامہ صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ کے بارے میں مواد اکٹھا کرنے میں مشغول ہوں ؛ جبکہ بھائی رضوان! گزشتہ دو دنوں سے ہمارے گھر کی بجلی کاٹ دی گئی ہے اور دشمنانِ اسلام ظلم وبربریت کا ہمارے شہر میں ننگا ناچ ناچ رہے ہیں۔ پھر ایسی صورت میں کیا جواب ہے ان کا جو اپنے بزرگوں کا قد خود سے اونچا نہیں دیکھنا چاہتے ہیں ؟!! میں اس موقعے پر اپنے ہم مسلک وہم مشرب ساتھیوں کو یہی کہوں گا کہ اب بھی وقت ہے کہ تم بدتہذیبی اور بدزبانی سے باز آؤ اور اپنے علما کی قدر کرنا سیکھو کہ توقیر علما سے کسی قوم کے مزاج کا پتہ چلتا ہے کہ اس میں کتنا دم ہے۔ اور ویسے بھی توہین علما کفر کو مستلزم ہے۔ قارئین کرام! معاف کریں، یہ زخم ایسا ہے کہ اس کی مرہم پٹی تو کی جاتی نہیں، البتہ اس پر نمک بار بار چھڑک دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے جذبات کو مہمیز لگ جاتی ہے اور پھر کچھ وہ حقیقت منظر عام پر آجاتی ہے جس سے اکثر لوگوں کو چڑ ہے اور جو مجھے اپنے حق میں آفت کا پرکالہ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ مگر میں ہوں کہ رسمی دوڑ دوڑنے کا ہرگز قائل نہیں ؛ خواہ میرے کرم فرما کچھ بھی سمجھیں۔ بہرحال آئیے! اب ہم اپنی اس کتاب کے بارے میں آپ کو بتلا دیں جو