کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 22
یہ واضح رہے کہ علامہ ابن باز رحمہ اللہ کو اپنا ہم مسلک وہم مشرب سمجھنے والا برصغیر کاطبقہ اپنے اسلاف اور بزرگوں کی تاریخ مرتب کرنے میں بڑا کنجوس ثابت ہوا ہے؛ بلکہ سچ پوچھیں تو اپنے بزرگوں کا احترام اور ان سے رشتہ اس طبقے سے تقریباً مفقود ہو چکا ہے۔ آپ کو شاید میری باتوں سے حیرت ہوگی مگر یہ سچ ہے کہ جب پوری دنیا میں اول پوزیشن حاصل کرنے والی سیرت نبوی پر لکھی گئی کتاب ’’الرحیق المختوم‘‘ کے مؤلف کا انتقال ہوا تو یہ طبقہ دکھلاوے کے صرف دو قطرے آنسو بہا کر علامہ صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ کو نذرانۂ عقیدت پیش کر کے خاموش بیٹھ گیا۔ کئی طرف سے بلند بانگ دعوے بھی کیے گئے کہ صاحب ’’الرحیق المختوم‘‘ کی سوانح مرتب کی جائے گی، ان کے مقالات ومضامین کو بہت جلد کتابی شکل میں منظر عام پر لایا جائے گا۔ لیکن یہ سارے بلند بانگ دعوے ٹائیں ٹائیں فش ثابت ہوئے اور آج تک کسی نے ان کے مضامین ومقالات اور ماہنامہ محدث کے اداریات کو یکجا کرنے کی زحمت نہیں کی۔ ہاں اسی طبقہ کا ایک گمنام مگر حساس طبیعت طالبعلم ناچیز نے رات دن محنت کر کے علامہ صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ کی سوانح حیات پر 534 صفحات پر مشتمل ایک کتاب ’’علامہ صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ، یادوں کے سفر میں ‘‘ ترتیب دے کر سعودی عرب میں پاکستانی پبلشر سے شائع کرا دی تو کئی ایک ذمے دار ہستیوں کو یہ کام ہضم نہیں ہو سکا اور مرنے کے بعد بھی صاحب الرحیق المختوم ان کی بے جا تنقید کا نشانہ بنے رہے۔ فلا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ۔ بھلا ایسے مسکینوں کو کیا معلوم کہ جس شخصیت کو وہ ’’گھر کی مرغی دال برابر‘‘ کے مصداق معمولی سمجھ رہے ہیں، دراصل وہ ایک غیرمعمولی اور بین الاقوامی شخصیت تھی۔ایشیا ہی میں نہیں بلکہ سات سمندر پار بھی بڑے بڑے مفکرین اور سیرت نبوی کے شوقین حضرات نیویارک کی ٹرینوں میں بارہا ’’الرحیق المختوم‘‘ کا مطالعہ کرتے دیکھے گئے۔ اور ہاں، میں خود اس بات کا گواہ ہوں اور پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لیے کوشاں اس فلسطینی لڑکی کا ای میل اور اس کا خط