کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 219
الشیخ کی نگرانی میں شیخ علیہ الرحمہ نے سارے عالم میں ہزاروں داعی مفتی مدرس خطیب دینی اداروں کے مدیر متعین کررکھے تھے ان اداروں کے تحت اور شیخ کے نجی اشراف میں دعوت وتبلیغ کے سوا مساجد کی تعمیر، مدارس کی تعمیر، کتابوں کی طباعت اورمفت تقسیم مصاحف اور تراجم قرآن کی طباعت وتوزیع ہوتی رہی اورسارے عالم میں یہ فیض پہنچتا رہا۔ اس کے ساتھ غریبوں، بیواؤں،محتاجوں اوریتامیٰ کی کفالت کرتے رہے۔ پھر حکومت نے دعوت وارشاد اور اوقاف کو ملاکر ایک منسٹری بنادی اورافتاء کا شعبہ الگ کرکے شیخ ابن باز کو مفتی عام بنادیا گیا لیکن شیخ کی دعوتی سرگرمی میں کوئی کمی نہ آئی نہ ان کی مرجعیت میں کوئی کمی واقع ہوئی اور جووزارت کی کرسی پر بیٹھنے کے لیے بے تاب تھے تھوڑے ہی دنوں کے بعد الگ کیے گئے۔ وزارت بننے کے بعد بھی شیخ کی ہمہ جہتی خدمات میں کمی نہ آئی بلکہ دن بدن ان میں اضافہ ہوتا ہی رہا اورآخرتک ان میں اضافہ ہوا۔ اورعلماء عوام طلباء امراء اوراغنیاء کی ان سے وابستگی بڑھتی ہی رہی اوران کے اوپر لوگو ں کا اعتماد پختہ ہی ہوتا گیا۔ ملک اوربیرون ملک ہرجگہ انھیں مراجعیت حاصل ہوئی۔ ایک طویل وقفے میں ایسی ادارے سے جس کی حیثیت بھی عالمی تھی اورجس کا حجم رابطہ سے کہیں زیادہ بڑا تھا اورجس کی مرجعیت بھی بہت زیادہ تھی۔ لاکھوں کروڑوں انسانوں کو اس کا فیض پہنچا۔ اورشیخ نے اس کا فیض لوگوں تک پہنچایااورتمام براعظم میں اس کے دعاۃ اس کے نمائندے گئے اوراقلیات کو نیز عام مسلمانوں کو اورلوگوں کو ان کا فریضہ یاددلایا غریبوں کی خبرگیری کی محتاجوں کی ضرورت پوری کی لوگوں کوتعلیم کی طرف راغب کیا۔ یہ ادارے علمی، دعوتی، تعلیمی اورخدمت خلق کے اعتبار سے اتنے مؤثر رہے کہ عالمی طورپر اس کے زبردست گہرے اثرات محسوس کیے گئے۔ شیخ ابن باز ھیئۃ کبار علماء کے بھی صدررہے اورنوازل میں انہوں نے حکومت کی راہنمائی کی حکومت کودرپیش نئے حالات اورنئے مشکلات کا اس ادارے نے حل تلاش کیا سماجی سیاسی، اقتصادی اورعلمی ترقیوں اورتبدیلیوں کے سبب مسلم فرداورسماج کے سامنے جو