کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 218
جامعہ اسلامیہ کے سارے فارغین شیخ ابن باز سے دلی وابستگی رکھتے تھے اورآج بھی انھیں اپنے دل میں بسائے ہوئے ہیں اوران کا تذکار علم وتقویٰ اورخدمت دین وخدمت ملت ہوتا رہتا ہے۔ اورجامعہ ہی کے فارغین کو ملک وبیرون ملک دعوت وتبلیغ تعلیم وتدریس اورتربیت کے لیے چنا گیا اوراب تک یہ سلسلہ چل رہاہے۔ عالمی اسٹیج پرانھیں رابطہ عالم اسلامی کی مجلس تاسیس کی صدارت ملی، اس کی فقہ اکیڈمی کی صدارت ملی، المجلس الاعلی للمساجد کی صدارت ملی۔ اورشیخ نے اس کا حق اداکیا عالمی مسائل کو حل کرنے کے لیے جس قدر دوراندیشی بصیرت بے تعصبی حق پسندی اور خیر خواہی کی ضرورت تھی ان سب سے حضرت الشیخ کو حصہ وافرملا تھا۔ بڑے سے بڑے گمبھیر مسائل کی عقدہ کشائی بھی امام عصرکے ذریعہ ہوئی تھی اوراگرکہیں گتھی لاینحل ہو تومعمول یہ تھا کہ دورکعت نماز ادا کرتے اوررب کریم سے اس کے حل کے لیے دعا کرتے اوررب کریم انھیں مسئلے کاحل سمجھا دیتا۔دنیا کے فقہاء دانشوراور متخصصین اکٹھا ہوتے ان کے محاضرات ہوتے اورشیخ کی صدارت ہوتی شیخ کی بابصیرت علمی تعلیق ہوتی اورلغزش پرتنبیہ ہوتی۔ حق کی وضاحت ہوتی اورعلماء کی قدر وقیمت بیان ہوتی اورعزت افزائی ہوتی۔ رابطہ کے اسٹیج سے انہوں نے دعوتی علمی فقہی مسائل کو عالمی پیمانہ پربڑھایا، صحیح جہت میں صحیح ڈھنگ سے اورصحیح اصول پرپیش کیا اورایک جہان کو ان سے راہنمائی حاصل ہوئی۔ اس کے ساتھ انہوں نے اس کے ذریعے سے سارے عالم میں دعوتی کام کو پھیلایا اورخدمت خلق کا سامان مہیا کیا۔ ان کے ہوتے رابطہ کے امور صحیح رخ پرچلتے اور انھیں صحیح جہت ملتی رہی تفصیلات اس قدر ہیں اورریکارڈ اتنے کثیر ہیں کہ انھیں پیش کرنے والے مجلدات میں پیش کرسکتے ہیں۔ تمام براعظم سے آئے ہوئے لوگ رابطہ کے اسٹیج پرشیخ سے مالی اخلاقی دینی ہراعتبار سے مستفید ہوتے تھے۔ شیخ کو بحوث علمی افتاء دعوۃ اورارشادکے اداروں کی صدارت ملی ہوئی تھی تقریباً دودہے تک شیخ کی نگرانی میں یہ سارے کام ہوتے رہے۔ اوراس ادارے کے تحت اورعلی حساب