کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 217
اوردونوں کے تعاون سے خدمت دین، خدمت علم خدمت خلق، خدمت ملت اورخدمت انسانیت کا وہ کام ہوگیا کہ وہ تاریخ اسلام کا خصوصاً اورتاریخ انسانیت کا عموماً ایک سنہرا باب ہے۔ اوراس اشتراک سے وہ کام انجام پایا کہ تمام علماء تنظیمیں اورمسلم ممالک اورمسلم اقلیتیں مل کر اس کا عشر عشیر نہ انجام دے سکیں بلکہ سب کی کل کارکردگی میں ان کے تعاون کی حصہ رسدی رہی۔ امام عصر کی عظمت قابل دید ہے انہوں نے عالمی اسٹیج پر مسلمانوں کی سربراہی کی۔ پہلے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں عالمی اسٹیج ملا اور پوری دنیا سے آئے ہوئے طلباء کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری لی اورایسی ذمہ داری نبھائی کہ طلباء اساتذہ اورعملہ کے لیے ایک نمونہ بن گئے اوران کی ایسی پرورش کی کہ سب کے لیے ایک شفیق باپ بن گئے اورگرویدگی کا یہ عالم کہ دنیا عش عش کراٹھے۔ ایسا منظر شاذ ونادر دیکھنے کو ملتا ہے اورپھراسے ایسا اسٹیج بنادیا کہ اس وقت دنیا کا سب سے زیادہ فعال اسلامی ادارہ بن گیا اورساری دنیا میں ہرطبقے میں اس کے اثرات پہنچ رہے ہیں اورکتاب وسنت کی تعلیمات کی اشاعت کا ہرطرف چرچا ہورہا ہے۔ 1962ء میں اس ادارے کی تشکیل کے موقع پر بہت سے تعقل پسند خچر نصاب تعلیم لے کر پہنچے تھے۔ مودودی صاحب کی بھی ایک پیشکش تھی ندوۃ، علی گڑھ اور دیگراداروں کے نصاب تعلیم کا ایک خلاصہ۔ ان کی اپنی سوچ کے ڈھانچے میں تیارشدہ۔ جس میں دانشوری زیادہ تھی اسے کل کا کل رد کردیا گیا تھا جس کاانھیں بہت دکھ تھا ڈاکٹر اسرار احمد نے یہ واقعہ بیان کیا ہے منیٰ میں ان کی غم کی صورت حال انہوں نے دیکھی تھی۔ اگر یہ دانشورانہ نصاب تعلیم ہوتا توجامعہ اسلامیہ سے دانشوروں مادہ پرستوں اورہڑبونگیوں کی کھیپ پیدا ہوتی، اللہ کا شکر ہے کہ ارباب جامعہ نے اس وقت نہایت دوراندیشی کا ثبوت دیا اورمنہج سلف کو تعلیمی نصاب میں ترجیح دی جس کے اچھے ثمرات سب کے سامنے ہیں۔ اس وقت جامعہ اسلامیہ کے فارغین سارے عالم میں سب سے یادہ متحرک نشیط اورسرگرم ہیں اورہمہ جہتی طورپر دین کا کام کررہے ہیں اللہ اسے پائیدار بنائے۔ آمین