کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 216
اسلامی تاریخ کا یہ سنہرا باب ہے اورا س کی مثال قرون خیر کے بعد دوسرے عصور میں ملنی محال ہے سوائے چندایک کے۔نظام حکومت میں شمولیت حاصل ہوپورے شاہی گھرانے میں علماء کو مکمل ادب واحترام حاصل ہواورشیخ وقت کو رہبروراہنما مانا جائے اور اس کی زیارت کو دینداری ثواب اور عزوشرف تسلیم کیا جائے۔ ایسی مثال قرون خیر کے بعد پوری تاریخ اسلام میں عنقاہے۔ لیکن جوانسانیت کی سطح سے اتر کربندرصفت بن گئے۔ ان کے لیے سب کچھ بس اچھل کودہے۔ سب کچھ یکساں ہے۔
ہندوستان کی پوری تاریخ میں ایک مثال بھی ایسی نظر نہیں آتی جس طرح کے تعلقات آل سعود اور علماء سعودیہ خصوصاً اورعام علماء کے درمیان عموما ہیں لیکن اس کے باوجود برصغیر کے اکثرمولوی تعنت کا مظاہرہ کرتے ہیں اورجب آل سعودکی بات آئے تو کانہم حمر مستنقرہ فرت من قسورہ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جب کہ ہندوستانی مولویوں کی ذہنیت یہ ہے کہ جوان پر مسلط ہوگیا چاہے کسی مذہب کا ہو کسی ذات کا ہو نیچ ہو ذلیل ہو کمین ہو اس کو کندھے پراٹھائے پھرتے ہیں ایک تھے۔ میرعثمان علی خان آصف جاہ سابع دولت حیدرآباد کے فرماں روا۔ ایک طوائف زادہ تشیع زدہ بدترین کمترین حسن کی تلاش میں طوائف کے کوٹھوں پر چڑھنے والا اورغیروں کی حسین جورؤوں کو اٹھوالینے والا مگر برصغیر کے بڑے بڑے مولوی اس کی بارگاہ میں لائن لگائے رہے۔ اشرفی چڑھاکر رکوع کی حالت میں غلامی کا پٹہ باندھ کوحاضری دیتے رہے اورچند سکوں کے لیے گھگھیاتے رہے وہ بھی اوران کی ذریت بھی جوغیرمسلم لیڈروں کی جوتی سیدھی کرتی ہے اوران کے مرنے پر قرآن خوانی کرتی ہے آل سعود کانام آنے پر مسخنانے لگتی ہے۔
بہرحال کسی کے منمانے اورہنہنانے سے حقیقت بدل نہیں سکتی ہے نہ تاریخ بدل سکتی ہے۔ وقت کا پہیا چلتا رہتا ہے۔ کام کرنے والے کام کرتے رہتے ہیں۔اورممنانے ہنہنانے والے منمانے اورہنہناتے رہتے ہیں۔
یہ امام عصرکا کمال تھا کہ آل سعودنے ان پر اعتماد کیا اورانہوں نے آل سعود پراعتماد کیا