کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 214
گئے۔ کمال تک پہنچنے کے لیے راہ میں استقامت ضروری ہے اوراستقامت سب کو نہیں ملاکرتی۔ امام عصرکو اللہ تعالیٰ نے استقامت سے بھی نوازا تھا اورامامت سے بھی اوران دونوں موہبتوں سے انھیں دن بدن عروج وکمال ہی ملتا رہا۔یہاں تک کہ وہ اپنے خالق سے جاملے۔ اورساری دنیا میں وہ خیر کے جو پودے لگاگئے ہیں وہ بھی برگ وبار دے رہے ہیں۔ حوربعدالکور ایک بڑی بلا ہے اس فتنے سے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم پناہ مانگاکرتے تھے۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ مستقلاً انسان کی کارکردگی نیک نامی میں وسعت وپھیلاؤ ہوتا رہے اوراس میں تسلسل قائم رہے اورزندگی کے آخری لمحات تک یہ سلسلہ برقرار رہے۔ یہ انفرادیت اللہ تعالی نے امام عصر کو عطا کی تھی۔ ایسا نہیں ہے کہ اس تسلسل کو ختم کرنے کی ناپاک کوششیں نہیں ہوئیں۔ تحریکیت اورعصرانیت زدہ ایک لابی نے ایسا کرنے کی کوشش ضرور کی لیکن امام عصر اپنی اثرپذیریوں میں اتنا آگے جاچکے تھے کہ ایسی ناروا کوششیں بے اثرہوکر رہ گئیں۔ شیخ کی وسعتیں اورپہنائیاں اتنا بڑھ چکی تھیں کہ ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی ہی نہیں جاسکیں اوررکاوٹ کھڑی کرنے کی ہرکوشش ناکام ہوکر رہ گئی۔
شیخ کو جوعصر ملا۔ وہ عصرزبردست تغیرپذیریوں کا عصرتھا۔ دنیا کی ساری بلائیں انسان پر ٹوٹ پڑی تھیں جس ملک اورخطے میں حضرت الشیخ کوکام کا موقع ملا وہ ملک اور خطہ بھی سب سے زیادہ ناپاک عزائم کی زد میں تھا۔ ایسے دور اورایسے علاقے میں کام کرنا اور پورے عصراور پورے عالم میں مؤثر بن جانا بذات خود اپنے میں ایک معنی رکھتا ہے۔ بذات خود یہ چیزہی ایسے فرد کی عظمت کی بہت بڑی دلیل ہے۔
حضرت شیخ نے اپنی زندگی کے وقفہ عمل میں پانچ ملوک کو دیکھا شاہ عبدالعزیز شاہ سعود، شاہ فیصل، شاہ خالد اور شاہ فہد ان کے سوا آل سعود کے امراء اورخصوصاً شاہ عبدالعزیز کے ابناء کے ساتھ رسم وراہ رہی اورحکومت کی تفویض کردہ ذمہ داریاں بھی رہیں۔ ساری ذمہ داریاں کس حسن خوبی سے ادا ہوئیں اورکس طرح ولاء کا تعلق برقرار رہایہ بھی ایک نمایاں قابل عمل نمونہ ہے، دوطرفہ ولاء ومحبت کا عزت واحترام کا تعلق، حددرجہ تناصح اورفدائیت کا تعلق اوراس