کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 211
اوراس شجر سایہ دار کو ہمیشہ قائم رہنے کی دعا کی جائے۔ جن کی گفتگو میں خوشبوتھی، جن کے برتاؤ میں تلطف اورہمدردی کی وہ پھوار کہ دلو ں کو چھولے۔ جو ساری دنیا میں بے حداحساب انسانوں کے دلوں میں بستے تھے۔ جن کے لیے علماء امراء یکساں طورپر دعا گورہتے تھے۔ جن کے علماء اور جہلاء سبھی ثنا خواں تھے۔ جن کی پہچان تھی تواضع اس نے کبھی کسی کے سامنے اپنے کو بڑا نہیں جتلایا لیکن ان سے مل کر ہرشخص نے خود کوچھوٹا محسوس کیا۔ یہ ہے اصل تواضع اور حدیث رسول کی تشریح من تواضع اللہ رفعہ اللہ۔جس کے انکسار اورعجز سے تواضع کو جامع مفہوم ملا۔جس نے تواضع اور حلم کو نئے معانی دیے۔ ابن باز اپنے وقت کا سب سے بڑا انسان۔سب سے بڑا بابصیرت انسان۔ سب سے زیادہ مشغول اورسرگرم کار انسان۔ انسانیت کا سب سے بڑا دوست۔ غریبوں کا سب سے بڑا ہمدرد یتیموں کا سب سے بڑا سہارا، بیواؤں کا سب سے بڑا آسرا اورمجبوروں بے کسوں کا سب سے بڑا مددگار، انسانی اخلاقی اوردینی اقدار کل کے کل ان کے اند ر موجود۔ ان کے فیض کا دریا کہاں نہیں بہے۔ ان کے رشد ہدایت کے انوارکہاں نہیں پہنچے۔ اوران کے دورمیں کون دوسرا فرد تھا جس کا فیض اس کی طرح ہرجگہ پہنچا۔ء اس کے فیوض متنوع تھے اس کے مالی فیوض کی برکھاہوئی اورہربراعظم پرہوئی۔ اس کے علم کی فیوض کی برکھا ہوئی اور چھینٹے چہار جانب پہنچے۔ ان کی بصیرت نے ایک عالم کو تابناک بنایا۔ ان کی تشفیعات سے ایک زمانہ سیراب ہوا۔ ان کی حمایتوں اورنصرتوں سے اقلیات اورمظلوموں کو سہارا او رحوصلہ ملا۔ بلکہ توانائی بھی ملی اوربسااوقات ظالموں کی سرکوبی بھی ہوئی۔ ان کی حکمتوں اوردانشوں کے موتی کس کونہیں ملے۔ اس کی کتاب وسنت کی دعوت براعظم سے براعظم تک پہنچی۔ اس نے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کو ایک پہچان دی اوردنیا کتاب وسنت کی دعوت کی آواز سے گونج اٹھی۔ اس نے رابطہ عالم اسلامی اور اس کی متعدد شاخوں کو اعتبار استناد اورعالمیت بخشااوراس کے ثمرات دورونزدیک لوگو ں کو ملے۔ اس نے