کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 210
بعدایسے انسان پرعکس زیرہوکر مستنیر ومسعود ہوئی ہوں گی عربی میں جوکہا جاتا ہے کہ فلاں نے نہ اپنے جیسا دیکھا نہ لوگو ں نے اس جیسا دیکھا شیخ اس کا مکمل نمونہ تھے۔ اورحقیقت تویہ ہے کہ لوگوں کو ہمیشہ اس کا اعتراف رہا لیکن جب ایسا کچھ کہا گیا تواللہ وحدہ لاشریک کے اس مؤمن بندے نے انکسارکامظاہرہ کیا۔ کبھی کسی ناحیے سے اپنی تعریف پسند نہ کی۔ اپنی زندگی میں اپنی حیات پر تیارکتاب کو چھپنے نہ دیا۔
امام ابن باز کون تھے؟ وہ جس کے چہرے سے معصومیت ہویدا تھی۔ جس کے رخ منور پر اس کے اندرون کا نورنمایاں نظر آتا تھا جس کو دیکھ کر دلوں کے اند رانابت پیدا ہوتی تھی۔ اورچاہت ہوتی تھی کہ بس مصلی بچھاکر اللہ کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھاکر رونا شروع کردیا جائے
[1]
[1] (خدمات انجام دیں اور سن 1986ء میں دعوت وتبلیغ کی غرض سے فیجی تشریف لے گئے۔ فیجی میں آپ نے تقریباً دس سال یعنی سن 1996ء تک دعوتی وتبلیغی مشن میں گزارا۔ اس دس سالہ مدت میں آپ نے وہاں کے مختلف مدارس میں تدریسی خدمات بھی انجام دیں۔
اس کے بعد آپ ہندستان چلے آئے اور اِس وقت آپ ہندستان ہی میں علمی ودعوتی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ مرکزی جمعیت اہلحدیث دہلی سے نکلے والے عربی جریدہ ’’الاستقامۃ‘‘ کے ایڈیٹر بھی آپ ہی ہیں۔آپ کی چھوٹی بڑی تالیفات اور شعری مجموعے کی تعداد کوئی سو سے زائد ہے اور مضامین ومقالات کی تعداد تو لا تعداد ہے۔
آپ کے پانچ بچے اور تین بچیاں ہیں۔
آپ انتہائی ملنسار ہیں۔ 8، 9 مارچ 2008ء میں علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ پر آپ نے جمعیت اہلحدیث کے کمپلیکس اوکھلا دہلی میں ایک سیمینار کرایا تھا۔ اسی موقعے سے میری آپ سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ویسے آپ کی تحریروں سے غائبانہ تعارف تو ایک زمانے سے تھا۔ آپ سے بات کر کے او رآپ کی مجلس میں بیٹھ کر بڑا لطف آیا۔ انھیں دنوں 611 صفحات پر مشتمل میری تحقیق شدہ کتاب ’’فتاوي للمسلمات لشیخ الإسلام ابن تیمیۃ والعلامۃ الألبانی، وتلیہا فتاوي الإمام النووی‘‘ انڈیا سے شائع ہوئی تھی۔ عرب وعجم میں یہ کتاب پہلی دفعہ شائع ہوئی تھی جس میں امام ابن تیمیہ اور علامہ البانی رحمہما اللہ کے وہ فتاوے تھے جن کا تعلق خواتین اسلام سے تھا اور ساتھ ہی امام نووی رحمہ اللہ کے فتاوے بھی شامل کیے گئے تھے۔ میں نے سیمینار میں حاضرین علمائے کرام اور باذوق حضرات کے درمیان اپنی یہ کتاب مولانا عبد المعید مدنی حفظہ اللہ اور مولانا صلاح الدین مقبول حفظہ اللہ کے ہاتھوں تقسیم کرائی تھی۔
ابھی مولانا عبد المعید مدنی حفظہ اللہ کے بارے میں یہ کلمات لکھ رہا ہوں ؛ جبکہ وہ کرناٹک کے ایک پروگرام میں شرکت کے لیے گئے ہوئے ہیں۔ میں نے سعودی عرب سے انھیں فون کر کے ان سے یہ مختصر سی معلومات لی ہے۔
اللہ تعالیٰ سے میری دعا ہے کہ وہ موصوف کو اور ہمارے علمائے کرام کو صحت کامل سے نوازے تاکہ وہ آسانی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ دین کی خدمت کر سکیں۔