کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 207
پڑھتے جاتے تھے اور دوسروں کے ساتھ بھی شیخ کی بات چیت جاری تھی۔ آخری ملاقات ریاض میں ہوئی، در اصل امیر متعب بن عبدالعزیز سے ملاقات طے تھی لیکن مجھے ٹیلی گرام ایک دن کی تاخیر سے ملا، میں سیدھا ریاض چلاگیا، امیر کے آفس پہنچا تو ان کے سیکرٹری عبدالعزیز الدوخی نے بتایا کہ امیر آج صبح دو دن کے لیے بیرون ملک چلے گئے ہیں، میں وہاں سے دار الافتاء آگیا اور ایک دن شیخ کا مہمان رہا، ان کی رفاقت میں گزرنے والا ہر لمحہ دل پہ نقش ہو جاتا تھا، جی چاہتا کہ کاش وقت تھم جائے اور یہ سنہری لمحات کبھی ختم نہ ہوں۔ خبر وفات ملتی ہے: آخر وہ وقت موعود آگیا جس کا سامنا ہر کہہ ومہہ نے کرنا ہے۔ 13 فروری ظہر کے وقت مولانا صہیب حسن صاحب کا فون آگیا، ایک دن پہلے لندن میں شریعت کونسل کے اجلاس کی وجہ سے سارا دن ان کے ساتھ گزراتھا، اتنی جلدی کیا آپڑی، جب انہوں نے شیخ کے انتقال کی خبر سنائی تو سکتہ طاری ہو گیا، حواس بحال ہوئے تو جنگ لندن ظہور نیازی سے پوچھا کہ خبر مل گئی ہے،انہوں نے کہا معمولی سی ہے تفصیل کا انتظار ہے، میں نے جو کچھ ذہن میں تھا اس گزارش کے ساتھ فیکس کردیا کہ عالم اسلام کے سب سے بڑے دینی راہنما کی خبر نمایاں چھپنی چاہیے، کیونکہ اخبار والوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ کوئی ناچنے گانے والا مرجائے تو بڑی بڑی ماتمی سرخیاں اور کئی دن تک تعزیتی خبریں چھپتی رہتی ہیں لیکن کوئی سید بدیع الدین محدث جیساانسان فوت ہوجائے تو چار دن کے بعد ایک سطری خبر چھپتی ہے، مجھے اسی کاڈر تھا، اسی لیے برقت تفصیل تیار کی، انٹرنیٹ کے ذریعے اس المناک سانحہ کی خبر سنتے ہی ساری دنیا کے مسلما ایسے افسردہ ہو گئے جیسے یہ سانحہ کی خبر سنتے ہی ساری دنیا کے مسلمان ایسے افسردہ ہو گئے جیسے سانحہ عین ان کے ساتھ پیش آیا ہو، اور اس میں شک بھی کیا ہے شیخ عبداللہ بن عبدالعزیز بن باز کا سانحہ ارتحال ایک شخصیت کی موت کا نہیں صحیح معنوں میں جہان علم وعمل کی موت کا ہے، اسی لیے عالم ربانی کی موت سارے جہان کی موت کے مترادف سمجھی جاتی ہے، اہل